Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

میرزا ادیب کے حالاتِ زندگی اور شخصیت

میرزا ادیب نے ۴؍اپریل ۱۹۱۴ء کو لاہور میں جنم لیا۔ ان کے والد کا نام مرزا بشیر علی تھا۔ مرزا ادیب کا اصل نام مرزا دلاور علی تھا جبکہ والدہ پیار سے ’’دلور‘‘ کہتی تھی۔ انہوں نے اپنا یہ تخلص اس وقت وضع کیا تھا جب وہ نویں کلاس کے طالب علم تھے اور پھر تاحیات یہی تخلص اپنائے رکھا اور اسی تخلص سے شہرت پائی۔ ’’ادبِ لطیف‘‘ کو دئیے جانے والے ایک انٹرویو میں مرزا ادیب نے اپنے نام سے تخلص تک کے سفر کو بیان کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:۔ ’’دلاور علی تو میرا وہ نام ہے جو میرے والدین نے رکھا اور ظاہر ہے کہ والدین ہی نام رکھا کرتے ہیں۔ میرزا ادیب میرا ادبی نام ہے۔ جو مَیں نے اس وقت اختیار کیا جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس طرح تریسٹھ برس سے میں میرزا ادیب ہی ہوں۔‘‘

میرزا ادیب کا تعلق ایسے مغل گھرانے سے تھا جہاں غربت اور مسلسل جد و جہد کا راج تھا۔ اُن سمیت وہ پانچ بہن بھائی تھے۔ مُغل خاندان سے ہونے کے باوجود ان کے والد اور تایا میں وہ خصوصیات موجود نہ تھیں جو مغل خاندان کا طرئہ امتیاز کہلائی جاتی ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں میرزا ادیب کے دادا بڑے عالم فاضل انسان تھے۔ ان کے بعد اس خاندان میں علم و فضل کے دروازے گویا بند ہو چکے تھے۔ ان کی والدہ کی خواہش اور محنت کے نتیجے میں دو بھائی تعلیم کے زیور سے جیسے تیسے آراستہ ہو گئے لیکن ان کی تین بہنوں نے کبھی کتابوں کو ہاتھ نہ لگایا تھا۔ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:۔ ’’میں مغل خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، دادا جان کے ’قلمی نسخے‘ میں لکھا تھا کہ ان کا خاندان افغانستان سے لاہور آیا تھا۔ 

میرے دادا اپنے زمانے کے عالم فاضل شخص تھے اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔‘‘ ’’مٹی کا دیا‘‘ میں وہ اپنی محرومیوں کے بارے میں رقمطراز ہیں:۔ ’’تایا جی اور ابا جی کو اپنے مغل ہونے پر فخر تھا۔ یہ فخر ایک ایسا اثاثہ بن گیا تھا جسے وہ محرومیوں کے لق و دق صحرا میں بھی اپنے سینوں سے چمٹائے ہوئے تھے۔‘‘ ’’یہ تھی میری نسل جو آگے قدم نہیں اٹھا سکی تھی۔ یہ نسل ایک جگہ رُک گئی تھی جیسے ایک غار میں اُتر گئی ہو اور باہر نکلنے کا راستہ نہ جانتی ہو۔ یہ نسل میری نسل تھی، جو صرف جینا جانتی تھی اور یہ صرف اس وجہ سے کہ جینے پر محبور تھی۔ میں اس جمود زدہ نسل کا ایک فرد تھا جس کی پیدائش محض ایک عام واقعہ تھی۔‘‘ یہ احساس محرومی اذیت بن کر تمام عمر ان کی تحریروں میں بھی جلوہ افروز ہوتا رہا۔ 

انہیں اپنی والدہ سے شدید محبت تھی۔ ان کی والدہ ایک سادہ سی اَن پڑھ خاتون تھیں جس کی زندگی محنت کرتے گزری اور ان کے بارے میں مرزا ادیب مٹی کا دیا میں لکھتے ہیں کہ وہ ہمہ وقت کام میں مصروف رہتیں۔ سب کی خدمت کرتیں اور بدلے میں کبھی کسی سے کچھ نہ مانگتیں۔ اس کے برعکس مرزا ادیب اپنے والد سے ہمیشہ دور بھاگتے تھے جس کی وجہ ان کے مزاج کی سختی اور اکھڑ پن تھا اپنی آپ بیتی میں انہوں نے اپنے والد صاحب کی محرومیوں اور معذوری کے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہیں میرزا ادیب کی تعلیم سے قطعاً کوئی دلچسپی نہ تھی۔ دو مرتبہ غصے کی حالت میں انہوں نے میرزا ادیب کا بستہ اٹھا کر سراج دین دھوبی کی بھٹی میں ڈال دیا تھا۔ اس کی وجہ میرزا ادیب ان میں محرومیوں کا شدید احساس ہونا بتاتے ہیں۔

بہر حال ان تمام تر حالات کے باوجود میرزا ادیب کی علم حاصل کرنے کی لگن میں کوئی کمی نہ ہوئی بلکہ یہ شوق اس وقت اور بھی بڑھ گیا۔ جب انہوں نے تجسس کے مارے اپنے دادا کا وہ صندوق کھول لیا جس میں ان کا علمی ورثہ بند تھا۔ اور یہی ورثہ انہیں ادب کی ان منزلوں تک لے جانے میں سنگِ میل ثابت ہوا جس پر پہنچتے پہنچتے میرزا ادیب افسانہ نگاری، خاکہ نگاری، سوانح نویسی اور ڈراما نویسی کے راستوں سے گزر کر ادب کی معراج کو پہنچے۔ میرزا ادیب نے تمام رسمی اور غیر رسمی تعلیم لاہور میں پائی۔ ۱۹۳۱ء میں میٹرک اور ۱۹۳۵ء میں اسلامیہ کالج سے بی اے آنرز کیا اور حصولِ معاش کے لیے پہلی ملازمت ’’ادبِ لطیف‘‘ میں کی۔ مجموعی طور پر ادب لطیف میں تقریباً ۱۷ سال ملازمت تھی۔

ادبِ لطیف کے بعد ایک فلمی و ادبی پرچہ مصور میں بھی کام کیا۔ اس کے بعد ریڈیو سے منسلک ہوئے اور یہاں بھی تقریباً ۱۶ سے ۱۷ سال کا عرصہ گزارا۔ حسن پرست کی ادارت بھی کی۔ میرزا ادیب کی شادی ۱۹۴۰ء میں ہوئی۔ اُن کی شریکِ حیات کا نام نجمہ تھا۔ مرزا ادیب کو خدا نے دو بیٹے اور تین بیٹیوں سے نوازا۔ انہوں نے ۳۱؍جولائی ۱۹۹۹ء میں وفات پائی۔ میرزا ادیب نے رومانوی اسلوب کا شاہکار ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ لکھ کر ادب میں اپنی ممتاز حیثیت قائم کی۔ افسانہ نگاری میں جگہ بنائی۔ خاکہ نگاری بھی کی۔ کتابوں کے تراجم بھی کئے۔ تنقیدی مضامین بھی لکھے، اور آخر میں ڈرامے کو اپنے قلم سے زینت بخشی نہ صرف سنجیدہ سٹیج ڈراما ان کی قلم سے تخلیق ہوا بلکہ بچوں کے ڈراموں میں بھی اچھا خاصا ذخیرہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔  

شمائلہ حسین


 

Post a Comment

0 Comments