Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو : مصطفی زیدی کی شاعری

اردو ادب کی تاریخ میں بے شمار شعراء ایسے ملتے ہیں جن کی شاعری کے کئی رنگ ہیں۔ ان میں سے ایک نام مصطفیٰ زیدی بھی ہے جنہوں نے اپنی خوبصورت اور مؤثر شاعری سے لاکھوں قارئین کو متاثر کیا اور ان کی زندگی میں ہی ان کے مداحین کا ایک وسیع حلقہ پیدا ہو گیا۔ ان کی شاعری میں لطافت بھی ہے سلاست بھی‘ ندرت خیال بھی‘ رومانیت بھی اور اداسی بھی۔ اُداسی کی جو شکل مصطفی زیدی کے ہاں ہے اس کی مثال کم ملتی ہے۔ البتہ ان کے ہم عصر ناصر کاظمی کے ہاں ہمیں یاسیت اور اداسی کی بڑی واضح مثالیں مل جاتی ہیں کیونکہ ناصر کاظمی کے کئی شعر اداسیت کی چادر میں لپٹے ہوئے تھے اور ان اشعار کی اثر آفرینی اپنی جگہ مسلمہ حقیقت تھی۔ 

مصطفی زیدی اکتوبر 1930ء کو الہٰ آباد (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم بھارت میں مکمل ہوئی جہاں انہوں نے شاعری شروع کر دی تھی۔ وہ پچاس کی دہائی کے آغاز میں پاکستان آ گئے اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادیبات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے اسلامیہ کالج کراچی اور پھر پشاور یونیورسٹی میں لیکچرار کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیئے۔ 1954ء میں انہوں نے سول سروس کا امتحان پاس کیا اور فوراً ہی اس نوکری سے وابستہ ہو گئے۔ وہ پاکستان کے مختلف حصوں میں سرکاری فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ نوابشاہ‘ ساہیوال‘ جہلم‘ خانیوال اور لاہور کے ڈپٹی کمشنر رہے۔

انہوں نے ایک جرمن خاتون سے شادی کی تھی جس سے ان کے دو بچے تھے ان کی اہلیہ ویرا زیدی نے شادی کے بعد پاکستان کو ہی اپنا گھر سمجھا اور وہ یہیں مقیم ہو گئیں۔ مصطفی زیدی لاہور میں بنیادی جمہوریتوں کے ڈپٹی سیکرٹری کے طور پر کام کرتے رہے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں دسمبر 1969ء میں مارشل لاء کے ضابطوں کے تحت انہیں معطل کر دیا گیا اور پھر مئی 1970ء میں انہیں نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ وہ ان 303 سول افسروں میں شامل تھے جنہیں مختلف الزامات پر نوکری سے نکال دیا گیا۔ مصطفی زیدی نے اپنے آپ کو بے گناہ قرار دیا اور کہا کہ انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ 

بقول ان کے انہوں نے اس وقت کی ایک طاقتور سیاسی شخصیت کے رشتہ داروں سے رشوت نہیں لی تھی۔ مصطفی زیدی کو ایک جدید شاعر بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی شاعری میں اظہاریت (Expressionism) اتنی مؤثر تھی کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اپنے شعری سفر کے ابتدا میں ہی وہ جوش ملیح آبادی سے وابستہ ہو گئے اور پھر ان کی یہ وابستگی تمام عمر قائم رہی۔ صرف انیس برس کی عمر میں ان کا پہلا شعری مجموعہ بھارت میں شائع ہوا۔ اس شعری مجموعے کا نام ’’زنجیریں‘‘ تھا۔ پاکستان میں یہ مجموعہ ’’روشنی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں ان کے پانچ اور شعری مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ’’کوہ ندا‘‘ ان کا وہ شعری مجموعہ تھا جو ان کی موت کے بعد شائع ہوا۔

مصطفی زیدی کی شاعری میں تنہائی کے بارے میں بھی خاصے اشعار ملتے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی تنہا نہیں رہے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ وہ بنیادی طور پر مجلسی آدمی تھے اور تنہائی پسند نہیں تھے۔ پھر ان کی شاعری میں تنہائی کے بارے میں اشعار کیوں ملتے ہیں اور ان کو احساس تنہائی کیوں تھا ؟ اسی طرح ان کی شاعری میں خاموشی کو بھی ایک اشعار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ان کے شعری مجموعے ’’قبائے ساز‘‘ میں بھی بڑی خوبصورت غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ ان کی شاعری کے مختلف رنگوں کا کمال ہے کہ کبھی ان کی رومانیت غالب آ جاتی ہے اور کبھی اداسی اور یاسیت سب کچھ اڑا کر لے جاتی ہے۔ 

پھر ان کے خیال کی ندرت بھی قاری کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے وہ اپنی بات کہنے کا ڈھنگ جانتے ہیں اور ان کی نکتہ آفرینی بھی کمال کی ہے۔ وہ بات کو الجھاتے نہیں بلکہ بڑے سادہ اور سلیس طریقہ سے بیان کرتے ہیں۔ ان کے ہاں ژولیدہ فکری نہیں بلکہ ہر بات کا واضح اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو بہت مقبولیت ملی اور ان کے کئی شعر زبان زد عام ہوئے۔ ہم ذیل میں مصطفی زیدی کے چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ 

آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا

 دل جس سے مل گیا وہ دوبارہ نہیں ملا

 آواز کو تو کون سمجھتا کہ دور دور

 خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا

 بجھ گیا شام حرم باب کلیسا نہ کھلا

 گل گئے زخم کے لب تیرا دریچہ نہ کھلا

 چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ

 ہم اُس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ

 گریہ تو اکثر رہا پیہم رہا 

پھر بھی دل کے بوجھ سے کچھ کم رہا

 دیوانے کو تکتی ہیں تیرے شہر کی گلیاں

 نکلا تو اِدھر لوٹ کے بدنام نہ آیا

 مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے

 یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا

 میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

 تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے 

انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو

 میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

 قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ

 زوال عشق میں سوداگروں کا ہاتھ تو دیکھ

 12 اکتوبر 1970ء کو مصطفی زیدی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کی موت بڑے پراسرار حالات میں ہوئی۔ ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خودکشی تھی یا قتل۔ ان کی موت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے ایک خاتون شہناز گل کا نام بھی لیا جاتا ہے لیکن ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ مصطفی زیدی کی موت کن حالات میں ہوئی۔ بلاشبہ ان کا یہ شعر ان کی موت پر ہی صادق آتا ہے میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے مصطفی زیدی کی شاعری کو بہرحال ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے جدید طرز احساس کو شعری طرز احساس سے بڑی خوبصورتی سے ملایا اور نئے نئے موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ اردو ادب کے سکہ بند نقاد بھی مصطفی زیدی کی شعری عظمت کے معترف ہیں۔ انہیں کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

عبدالحفیظ ظفر


Post a Comment

0 Comments