بالآخر ’’بانو آپا‘‘ بھی چلی گئیں۔ 4 فروری 2017ء کو اپنے آخری سفر پر روانہ ہوئیں اور یوں اشفاق احمد سے 13 سال کی جدائی بھی ختم ہو گئی۔ 1928ء میں فیروز پور، بھارتی پنجاب میں پیدا ہونے والی بانو نے قیام پاکستان کے بعد اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ ہجرت کی اور لاہور کو نیا گھر بنایا۔ یہاں انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے اُردو زبان میں ماسٹرز کیا۔ یہیں ان کے ایک ہم جماعت نے انہیں اپنا ہم سفر بنانے کا ارادہ ظاہر کیا اور یوں انہیں اشفاق احمد کا ساتھ ملا جو بعد میں معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، مترجم اور براڈ کاسٹر کے طور پر مشہور ہوئے۔ حلقہ احباب میں انہیں ’’بانو آپا‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بانوقدسیہ نے طالبِ علمی کے دور میں اپنا پہلا افسانہ لکھا جو ’’ادب لطیف‘‘ نامی میگزین میں شائع ہوا۔
انہوں نے اُردو اورپنجابی زبانوں میں کئی مقبول ڈرامے بھی لکھے۔ بانو قدسیہ کی مشہور کتابوں میں آتش زیرپا، آدھی بات، ایک قدم، امربیل، آسے پاسے، بازگشت، چہار چمن، دست بستہ، دوسرا دروازہ، فٹ پاتھ کی گھاس، حاصل گھاٹ، ہوا کے نام، کچھ اور نہیں، موم کی گلیاں، ناقابلِ ذکر، پیا نام کا دیا، شہرِ بے مثال، سورج مکھی، تماثیل، توجہ کی طالب شامل ہیں۔ 1981ء میں انہوں نے شہرہ آفاق ناول ’’راجہ گدھ‘‘ تحریر کیا۔ اُردو ادب کی لازوال خدمات پر انہیں سال 2003ء میں ستارہ امتیاز اور سال 2010ء میں بلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
ذیل میں بانو قدسیہ کے چند ناولوں سے اقتباسات قارئین کی ذوق کے نذر کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
میرے اردگرد کپلنگ کا مقولہ گھومتا رہتا ہے۔ مغرب، مغرب ہے اور مشرق، مشرق۔ یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے۔ سوچتا ہوں مل بھی کیسے سکتے ہیں؟ مشرق میں جب سورج نکلتا ہے مغرب میں عین اس وقت آغازِ شب کا منظر ہوتا ہے۔ سورج انسان کے دن رات متعین کرنے والا ہے۔ پھر جب ایک کی رات ہو اور دوسری جگہ سورج کی کرنیں پھیلی ہوں۔ ایک قوم سوتی ہو ایک بیدار ہو تو فاصلے کم ہونے میں نہیں آتے۔ (حاصل گھاٹ سے اقتباس)
کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کون کس شخص کا سہارا بنایا جائے گا۔ جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر ٹھوس مائع اور گیس میں بدل جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اس وقت ایک قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کے تابع کر دی جاتی ہیں۔ پھر جو وقت پہلے قلب میں رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے، جو موسم، جو رُت، جو پہلے دن میں طلوع ہوتا ہے وہی دوسرے آئینے منعکس ہو جاتا ہے۔ دوسرے قلب کی اپنی زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔ (راجہ گدھ سے اقتباس)
میری چپ، حویلی کے صدر دروازے کے قدموں میں گرے ہوئے اس قفل کی مانند ہے جسے چور پچھلی رات دروازے کے کنڈے سے اُتار کر پھینک گئے ہوں۔ ایسا تالا بہت کچھ کہتا ہے، لیکن کوئی تفصیل بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ساری واردات سے آگاہ ہوتا ہے۔ لیکن اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حفاظت نہ کر سکنے کا غم، اپنی ہیچ مدانی کا احساس، اپنے مالکوں سے گہری دغا بازی کا حیرت انگیز انکشاف اسے گم سم کر دیتا ہے۔ (انترہوت اداسی سے اقتباس)
بحث کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ بال کی کھال نکالنے سے کیا حاصل؟ میری بلا سے آپ چاہے کچھ سمجھتے ہوں مجھے اپنے نظریوں پر شکوک نہیں ہونے چاہئے۔ آپ اگر دنیا کو چپٹا سمجھتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ (شہرِ بے مثال سے اقتباس)
بھلا زوال کیا ہوا تھا؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ابلیس کا گناہ فقط تکبر ہے لیکن میرا خیال ہے کہ تکبر کا حاصل مایوسی ہے۔ جب ابلیس اس بات پر مصر ہوا کہ وہ مٹی کے پتلے کو سجدہ نہیں کر سکتا تو وہ تکبر کی چوٹی پر تھا لیکن جب تکبر ناکامی سے دو چار ہوا تو ابلیس اللہ کی رحمت سے نا اُمید ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام بھی ناکام ہوئے۔ وہ بھی جنت سے نکالے گئے۔ لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے۔ یہی تو ساری بات ہے۔ ابلیس نے دعویٰ کر رکھا ہے، میں تیری مخلوق کو تیری رحمت سے مایوس کروں گا۔ نااُمید، مایوس لوگ میرے گروہ میں داخل ہوں گے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کے چاہنے والوں کا اغواء ممکن نہیں۔ وہ کنویں میں لٹکائے جائیں، صلیب پر لٹکیں، وہ مایوس نہیں ہوں گے۔ (سامان وجود سے اقتباس)
اللہ تعالیٰ جس کو اپنا آپ یاد دلانا چاہتا ہے اسے دکھ کا الیکٹرک شاک دے کر اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔ دکھ کی بھٹی سے نکل کر انسان دوسروں کے لئے نرم پڑ جاتا ہے۔ پھر اس سے نیک اعمال خودبخود اور بخوشی سرزد ہونے لگتے ہیں۔ دکھ تو روحانیت کی سیڑھی ہے۔ اس پر صابرو شاکر ہی چڑھ سکتے ہیں۔ (دست بستہ سے اقتباس)
خواہشات تو سبھی کے دل میں ہوتی ہیں۔ سب ان کی تکمیل چاہتے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ ان تک رسائی کے لیے کون سا راستہ جاتا ہے۔ اسی راستے کے انتخاب میں تو انسان کا پتہ چلتا ہے۔ اسی انتخاب میں انسان کی بڑائی یا اس کا چھوٹا پن چھپا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ وہ سونے کا ہے یا پیتل کا۔ ہیرو بھی ہیروئین تک پہنچنا چاہتا ہے اور ولن بھی… صرف راستے کے انتخاب سے ایک ہیرو ٹھہرتا ہے اور دوسرا ولن۔ (فٹ پاتھ کی گھاس سے اقتباس)
پاکستان لوٹ جانے میں جو بھی وجوہات مانع تھیں، اپنی جگہ، لیکن امریکہ میں بھی میرا دم گھٹنے لگا۔ وہاں میری اندر کی زندگی ایسی تھی جیسے مکڑی کا جالا ہوا میں تیرتا ہو… کشتی کی ٹوٹی پتوار بے کراں سمندر پر بے مقصد پھرتی ہو… میں لمحے سے لمحے تک… دن کو دن سے، سالوں کو نئے سال سے جوڑتا رہا۔ امریکہ صرف ضروریات زندگی کو پورا کرنے کا سفر تھا۔ ضروریات بڑھ رہی تھیں، ان کے لئے جدوجہد اور بھی روز افزوں تھی۔ دن ہفتے، مہینے، سال معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی نذر ہوتے رہے۔ پاکستان میں میرا جسم نا آسودہ تھا، امریکہ میں روح تشنہ رہنے لگی۔ ہولے ہولے اس تشنہ روح نے سوال پوچھنا شروع کر دئیے… کیا میں دنیا میں صرف زیادہ کمفرٹس فراہم کرنے کے لئے لایا گیا ہوں؟ مجھے کیا کرنا ہے؟ کس کے لئے کرنا ہے اور پھر کیوں کرنا ہے؟ (کعبہ میرے پیچھے سے اقتباس)
اللہ تعالیٰ شاکی ہے کہ اتنی نعمتوں کے باوجود آدم کی اولاد ناشکری ہے اور انسان ازل اور ابد تک پھیلے ہوئے خدا کے سامنے خوفزدہ کھڑا بلبلا کر کہتا ہے۔ یا باری تعالیٰ! تیرے جہاں میں آرزوئیں اتنی دیر سے کیوں پوری ہوتی ہیں؟ زندگی کے بازار میں ہر خوشی اسمگل ہو کر کیوں آتی ہے؟ اس کا بھاؤ اس قدر تیز کیوں ہوتا ہے کہ ہر خریدار اسے خریدنے سے قاصر نظر آتا ہے؟ ہر خوشی کی قیمت اتنے ڈھیر سارے آنسوؤں سے کیوں ادا کرنا پڑتی ہے۔ آقائے دو جہاں ایسے کیوں ہوتا ہے کہ جب بالاآخر خوشی کا بنڈل ہاتھ میں آتا بھی ہے تو اس بنڈل کو دیکھ کر انسان محسوس کرتا ہے کہ دکاندار نے اُسے ٹھگ لیا ہے؟ جو التجا کی عرضی تجھ تک جاتی ہے اُس پر ارجنٹ لکھا ہوتا ہے اور جو مہر تیرے فرشتے لگاتے ہیں اُس کے چاروں طرف صبر کا دائرہ نظر آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے باری تعالیٰ؟؟ جس مال گاڑی میں تو انسانی خوشی کے بنڈل روانہ کرتا ہے وہ صدیوں پہلے چلتی ہے اور قرن بعد پہنچتی ہے لوگ اپنے اپنے نام کی بلٹی نہیں چھڑاتے بلکہ صدیوں پہلے مرکھپ گئی ہوئی کسی قوم کی خوشی کی کھیپ یوں آپس میں بانٹ لیتے ہیں جیسے سیلاب زدگان امدادی فنڈ کے سامنے معذور کھڑے ہوں۔ خوشی کو قناعت میں بدلنے والے رب سے کوئی کیا کہے۔ جبکہ آج تک اُس نے کبھی انسان کی ایجاد کردہ گھڑی اپنی کلائی پر باندھ کر دیکھی ہی نہیں۔ (امربیل سے اقتباس)
گھر ہمیشہ مہربانیوں سے لٹتے ہیں۔ نئی محبتوں سے اُجڑتے ہیں۔ ایسی مہربانیاں جو گھر کی سالمیت کو دیمک بن کر چاٹ جاتی ہیں۔ ایسی مہربانیاں جو ماں سے زیادہ چاہ کر کی جاتی ہیں۔ جب کوئی چاہنے والا گھر کے ایک فرد کی انا کو جگا کر اسے وہ سارے مظالم سمجھاتا ہے جو گھر کے دوسرے فرد اس پر کرتے رہے ہیں۔ وہ ان ساری لڑائیوں کے ڈھکے چھپے معنی واضح کر دیتا ہے تو گھر کی پہلی اینٹ گرتی ہے۔ گھر کی ایک ایک اینٹ محبت سے اکھاڑی جاتی ہے۔ ہر چوگاٹ پر دہلیز چوم چوم کر توڑی جاتی ہے۔ جب باہر کا چاہنے والا لفظوں میں شیرینی گھول کر گھر والوں کو بہکاتا ہے تو پھر کوئی سالمیت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ہر انسان کمزور لمحوں میں خود ترسی کا شکار رہتا ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق میں لگا رہتا ہے کہ اس پر مظالم ہوئے اور اسی لئے وہ ظلم کرنے میں حق بجانب ہے۔ ہم اپنوں کو تو نہ سمجھا سکے تو ان کو کیا بتاتے کہ ہمارے گھر کی اساس غلط نہ تھی چاہنے والے غلط تھے۔ ہر پُرانی محبت میں پُرانے پن کی وجہ سے جو غلطیاں کوتاہیاں موجود ہوتی ہیں اُن کو اجاگر کرنے والے بہت ذہین تھے.(سمجھوتہ سے اقتباس)
0 Comments