عمر خیام ایک ریاضی دان اور فلسفی بھی ہے، لیکن اس کی شہرت کا دارومدار اس کی شاعری پر ہے۔ اس کی علمی و ادبی شخصیت کایہ پہلو اتنا مضبوط اور معروف ہے کہ اس کی فلسفیانہ قدرومنزلت اور علم ریاضی میں اس کی غیر معمولی اہلیت اس کی اوٹ میں گہنا گئی۔ عمر خیام کی رباعیات نے انھیں دنیائے ادب میں قبولیت دوام دی۔ان رباعیات کے تراجم دنیا کی قریباً سبھی بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ان میں انسانی محبت کے معاملات سے لے کر زندگی اور حسن جیسے امور پرفلسفیانہ افکار تک سبھی کچھ موجود ہے جو ایک وسیع تر فکری وژن کا حامل ہے۔
ان رباعیات کی اصل خوبی بیان کی تاثیر ہے جس نے پڑھنے والوں کو ہمیشہ مسحور کیا۔ اس تاثیر میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوا ہے ۔ سائنس کے شعبے میں عمر خیام کی خدمات ان کی اعلی درجے کی شاعری کے زیر سایہ رہیں اور زیادہ زیر بحث نہیں آئیں۔ یہی صورت ان کی فلسفیانہ تحریروں کے ساتھ رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ جیسے اعلی پائے کے شاعر تھے، ریاضیات اور فلسفہ کے شعبوں میں بھی ان کی خدمات اور جوہر خداداد دنیائے علم و ادب کے اہم ترین ماہرین کے ہم پلہ ہے۔عمر خیام ایران کے شہر نیشا پور میں پیدا ہوئے۔ بہت چھوٹی عمر میں برائے حصول تعلیم ثمرقند منتقل ہوئے، جہاں انھوں نے معروف اساتذہ سے تحصیل علم کیا۔
یہاں دنیا بھر کے مصنفین کی کتاب سے بھرے ہوئے کتب خانوں سے بھی استفادہ کیا۔ ان کی دلچسپی کے شعبے ریاضیات اور علم فلکیات ہی تھے۔ ان دونوں علوم میں انھوں نے خصوصی دست گاہ حاصل کی اور متعدد مقالے اس حوالے سے تحریر کیے جن سے ان کی ان شعبہ ہائے علوم پر دسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔ نیشا پور ہی میں عمر خیام نے ریاضی دانوں اور علم نجم کے ماہروں کے ساتھ مل کر جلالی کیلنڈر تیار کیا۔ ماہرین کی یہ مجلس سلجوق سلطان ملک شاہ اول کی زیرقیادت قائم کی گئی تھی جبکہ اس کا مقصد ایرانی کیلنڈر میں موجود نقائص کو دور کرکے ایک نسبتاً زیادہ کارآمد کیلنڈر تیار کرنا تھا۔ مجلس نے اپنا کام 1079ء میں جلالی کیلنڈر کی صورت میں مکمل کیا۔
اسے دنیا کے قدیم ترین شمسی کیلنڈروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا استعمال گیارہویں سے بیسویں صدی عیسوی تک ایران میں جاری رہا۔ ایران اور افغانستان کا موجودہ کیلنڈر اسی جلالی کیلنڈر کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ ہندی کیلنڈروں کی طرح جلالی کیلنڈر کی بنیاد برجوں میں شمسی تبدیلی پر قائم کی گئی ہے اور اسی لیے یہ گریگورین کیلنڈر کی نسبت زیادہ درست ہے۔ مہینوں کا دورانیہ انتیس سے اکتیس دنوں پر مشتمل ہے۔ اس دورانیہ کا انحصار اس امر پر ہے کہ کب سورج نئے برجی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ ایرانی ریاضی دانوں کی طرح عمر خیام بھی ایک ماہر علم نجوم تھے۔ سلطان جلال الدین ملک شاہ سلجوق نے عمر خیام کو دعوت دی کہ وہ اہم سائنس دانوں کو اکٹھا کریں اور ایک سائنسی تجربہ گاہ قائم کریں۔ سلجوقی حکمرانوں کے دور میں عمر خیام نے بطور شاعر غیر معمولی شہرت حاصل کی۔
رباعیات، جو چار مصرعوں کی ایک شعری صنف ہے، انھوں نے ایک ہزار کے لگ بھگ لکھی تھیں۔ فٹزجیرالڈ کے انگریزی ترجمے نے نہ صرف مغربی اقوام کو عمر خیام کی شاعری سے متعارف کرایا بلکہ خود ایرانیوں اور مسلم دنیا کو ان کے تعارف نو کا باعث بنا کیوں کہ انھی تراجم کے بعد حقیقی معنوں میں مسلم دنیا میں ان پر تنقیدی و تحقیقی کام جامع انداز میں شروع ہوا اور یوں انھوں نے اپنے ہی ایک جینئس کو دریافت نو کیا، جسے وہ تاریخ کے غبار میں کھو بیٹھے تھے۔ معروف ایرانی مصنف صادق ہدایت نے عمر خیام کی شاعری کے تراجم ’ترانہ خیام‘کے نام سے کیے، جس کے بعد ایران میں عمر خیام شناسی میں غیر معمولی تیزی آئی۔ رباعیات صرف رومانی موضوعات پر ہی نہیں ہیں بلکہ خالص فلسفیانہ موضوعات بھی اس میں جگہ پاتے ہیں، تاہم بطور فلسفی عمر خیام کے خیالات جیسے ان کی نثری تحریروں کی صورت میں سامنے آئے ہیں، ان کی نوعیت یہاں شعر میں بہت سے مقامات پر بہت مختلف ہے۔
ان رباعیات میں عمر خیام مذہبی راہنماؤں کے دوغلے پن اور منافقت کو ہدف تنقید بناتے اور مختلف مسلکوں پر نقطہ اعتراض اٹھاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے برسر پیکار مذہبی مسلکوں اور اداروں کے مقابلے میں وہ انسان دوستی کے نظریہ کا پرچار کرتے ہیں۔ عمر خیام کی اسی فکری و مذہبی روش کی بنا پر انھیں مشرق کے والٹیئر کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ والٹیئر ہی کی طرح عمر خیام کی بھی مذہبی اجارہ داروں اور مذہبی تعصبات اور تنگ نظری سے تمام عمر جنگ رہی، تاہم عمر خیام کے مذہبی خیالات کے حوالے سے متضاد آراء موجود ہیں۔ فٹزجیرالڈ انھیں صوفی شاعر قرار دیتا ہے جبکہ اپنی شاعری میں وہ صوفیا کی بہت سی عادات و خصائص کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ اسی طرح ان کے بارے میں لذت پسند ہونے کا خیال بھی عام ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے نام پر کلبوں کے نام بھی رکھے گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری میں موجود علامات اور تلازموں کو ان کے ظاہری معنوں میں لینے سے ہی یہ تضادات سامنے آئے ہیں۔ نثر میں سیدھے سبھاؤ سے بات کرنا ممکن اور سہل ہوتا ہے، لیکن شعر کی صورت میں یہ تجرید کی طرف مائل ہوتے ہیں اور یوں ان میں ایسا ابہام پیدا ہونے کے اندیشہ موجود رہتا ہے، جو ان کے مفاہیم کو دھندلا دے۔ عمر خیام پر تناسخ ارواح کے نظریے پر یقین رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اپنی ایک رباعی میں وہ لکھتے ہیں ’’میں نے ایک کمہار کو دیکھا کہ بازار میں بیٹھا مٹی کے ڈھیلے پر ضربیں مار رہا تھا۔ مٹی کے ڈھیلے نے کہا ’’سنو، مجھ سے نرمی سے پیش آؤ کہ کبھی میں تم جیسا تھا، اب فقط مٹی ہوں‘‘ عمر خیام کے فلسفیانہ مقالات سے حیات بعد از موت کے نظریے پر ان کے ایقان کی خبر ملتی ہے، تاہم اپنی شاعری میں وہ مرنے کے بعد کی حیات کے بارے میں مختلف موقعوں پر مختلف رائے دیتے ہیں۔
کہیں وہ زمینی زندگی کے علاوہ کہیں اور حیات کے امکان کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں وہ کہتے ہیں کہ موت کی منزل سے کوئی شے واپس نہیں آتی۔ چند رباعیات میں آواگون کے نظریے کی پرچھائیاں موجود ہیں، لیکن یہ بیان استعاراتی نوعیت کا ہے۔ چند ایک رباعیات میں وہ واضح طورپر ہمیں بتاتے ہیں کہ زندہ اشیاء موت کے بعد رزق خاک ہوجاتی ہیں اور پھر اسی خاک سے نئی حیات کی نمو ہوتی ہے۔ اپنی شاعری اور فلسفیانہ تحریروں میں عمر خیام کے ہاں معمولی تضادات موجود ہیں جو دو مختلف ذریعہ ہائے اظہار کی جمالیاتی ہیئت کے پیش نظر عجیب معلوم نہیں ہوتے۔ مثلاً شر کی موجودگی کی عقلی توضیح ہمیں ان کی فلسفیانہ تحریروں میں ملتی ہے، لیکن شاعری میں وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اور اس کی موجودگی کی کوئی توجیہ ماننے سے انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
عقلی طورپر دکھ اور درد کی موجودگی کے جواز کو جاننے کے باوجود عملی سطح پر اسے رد کرنے کا رویہ بھی بالکل فطری اور قابل فہم ہے۔ یہی تضاد ہمیں انسانی زندگی کی ناپائیداری کے موضوع پر عمر خیام کے بطور شاعر اور بطور فلسفی متضاد خیالات کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ انسانی زندگی کی بے معنویت کا قائل ہیں، لیکن اپنی فلسفیانہ تحریروں میں وہ اس سے برعکس اسلامی نقطہ نظر اپناتے ہیں، جس کے مطابق دنیا میں کوئی شے کسی مقصد کے بغیر پیدا نہیں کی گئی ہے: ’’جس درجے میں فانی انسان آتے اور جاتے ہیں، اس کا نہ کوئی اختتام ہے، نہ کوئی انجام کہ جو ہم جان سکیں، اور نہ ہی کوئی ایسی خاص بات جسے صاف صاف بیان کیا جا سکے۔ جہاں سے بھی ہم آتے ہیں، اور جہاں بھی ہم جاتے ہیں‘‘اپنی رباعیات میں عمر خیام نے جن موضوعات کو شامل بحث کیا ہے، ان میں زندگی کے مفہوم اور اس کی ناپائیداری، اثبات عدل الہی، تصور علم، معادیات، جبرو قدر اور فلسفیانہ حکمت وغیرہ اہم ہیں۔
محمدعاصم بٹ
(کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)
0 Comments