Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

خلیل جبران

’’میں نے خاموشی باتونی لوگوں سے سیکھی، برداشت، تنگ نظر لوگوں سے اور مہربانی، نامہربان لوگوں سے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ میں اپنے ان استادوں کا شکرگزار نہیں ہوں۔‘‘ ’’ہم اپنی مسرتوں اور دکھوں کا انتخاب ان کے رونما ہونے سے بہت پہلے کرلیتے ہیں۔‘‘ دنیا بھر میں خلیل جبران کا شمار مقبول ترین شاعروں اور دانشوروں میں ہوتا ہے۔ وہ شیکسپیئر اور لاؤزی کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ بکنے والا شاعر کا اعزاز رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب ’پیغمبر‘ 1923میں شائع ہوئی تھی، جس نے چھپنے کے فوراً بعد ہی غیر معمولی مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ بہت تھوڑے عرصے میں ان کتاب کے دنیا کی بڑی زبانوں میں تراجم شائع ہوئے، جنہوں نے خاص طورپر یورپ بھر میں خلیل جبران کو غیر معمولی شہرت عطا کی۔

یہ اس دور کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔ عربی ادب میں خلیل جبران کی حیثیت ایک ادبی اور سیاسی باغی کی رہی۔ انہوں نے نہ صرف فکری سطح پر روایتی سوچ کو للکارا بلکہ ادب میں ہیئتوں کے تجربوں سے روایتی اصناف میں تبدیلیاں متعارف کرائیں۔ ان کے رومانی اسلوب نگارش اور خاص کر ان کی نثری شاعری نے جدید عربی ادب کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے کلاسیکی جمالیات کے مقابلے میں جدیدیت کی طرح ڈالی اور یوں وہ عربی ادب میں اسلوب ساز ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ خلیل جبران 6 جنوری 1883 کو لبنان میں پیدا ہوئے، تاہم نوجوانی میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ ہجرت کرگئے۔ لبنان سے ہجرت کی وجہ خاندان کی مالی کسمپرسی تھی۔ دیار غیر میں ان کی والدہ نے سخت محنت کے ذریعے بچوں کی تعلیم اور دیگر اخراجات پورے کیے۔
وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لبنان واپس آئے اور بیروت کی درس گاہ ’الحکمۃ‘ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اسی درس گاہ میں انہوں نے اپنے ایک ہم جماعت کے ساتھ مل کر ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ انہیں درس گاہ میں ’کالج کا شاعر‘ کا اعزاز بھی ملا۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ جیسے اعلیٰ پائے کے شاعرہیں، ویسے ہی باکمال مصور بھی ہیں، تاہم تمام عمر ان کی توجہ زیادہ تر اپنی شاعری پر رہی اور اسی شعبے میں انہیں غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی،تاہم ابتدائی برسوں میں خلیل جبران کی زیادہ توجہ اپنی مصوری پر رہی۔ انہوں نے پیرس میں ایک آرٹ سکول میں مصوری کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی۔ یہی فن ان کا ذریعہ روزگار بنا۔ خلیل جبران کی پہلی کتاب ’پاگل‘ کے نام سے شائع ہوئی ۔

خلیل جبران فرانسس مارش کے گرویدہ تھے۔ بیروت میں الحکمۃ میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے اس مصنف کی تحریروں کو ازبر کرنے کی حد تک پڑھا۔ خود ان کی تحریریں بھی اسی مصنف کے اسلوب میں رنگی ہوئی ہیں۔ فرانسس مارش کے محبت کے نظریے نے خلیل جبران کی سوچنے اور سمجھنے کی اہلیت پر گہرے اثرات مرتسم کیے تھے۔ اپنی نظموں میں خلیل جبران روحانی اصطلاحات اور رسمی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ کائناتی محبت کا نظریہ انہوں نے عیسائیت سے مستعار لیا تھا، تاہم ان کے تصوفانہ خیالات مسیحیت کے ساتھ ساتھ اسلام، یہودیت اور عرفانیت کے زیر اثر پروان چڑھے تھے۔ خلیل جبران کی تحریریں نظریاتی طورپر امریکا میں بین الثقافت اور نئے عہد کی تحریک سے جڑی ہوئی ہیں۔ پچھلی صدی عیسوی میں ساٹھ کی دہائی کے دوران خلیل جبران کی مقبولیت امریکا اور عرب ممالک کی حدود سے باہر پھیل گئیں۔ اس مقبولیت میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوا۔ ان کی کتاب ’پیغمبر‘ 1923میں شائع ہوئی تھی اور آج تک اس کی لاکھوں کاپیاں دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں فروخت ہوچکی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق چالیس سے زائد زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہوا، جن میں اُردو بھی شامل ہے۔ امریکا میں اس کتاب کو بیسویں صدی کی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب کا درجہ حاصل ہوا۔ معروف زمانہ گلوکار ایلوس پریسلرخلیل جبران کے اہم ترین معترفین میں سے ایک جانا جاتا ہے۔ خلیل جبران عمر بھر لبنان سے اپنی محبت میں امریکہ کے شہری نہیں بنے۔ وہ اپنی تحریروں میں ہمیشہ واپس اپنے آبائی وطن جانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ انہیں لبنان ہی میں دفنایا جائے۔ یہ خواہش 1932ء میں ان کی وفات کے اگلے برس ان کی دوست میری ہیسکل نے پوری کی۔ ان کا مزار اب جبران میوزیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ان کی قبر کے کتبے یہ الفاظ درج ہیں ’’میں چاہتا ہوں کہ میری قبر کے کتبے پر یہ الفاظ لکھے جائیں۔ میں آپ کی طرح زندہ ہوں۔ اور آپ کے قریب کھڑا ہوں۔ اپنی آنکھیں بند کیجئے اور اپنے آس پاس دیکھئے، آپ مجھے اپنے سامنے پائیں گے۔‘‘ خلیل جبران نے مختصر عمر پائی۔ 48 برس کی عمر میں وہ 10اپریل 1931ء کو نیویارک میں ٹی بی میں مبتلا ہوکر فوت ہوئے۔ لبنانی حکومت نے بیروت میں جبران میوزیم میں ان کی ذات سے متعلقہ اشیاء اور کتابیں محفوظ کی ہوئی ہیں جبکہ 1971ء میں اسی حکومت نے خلیل جبران کی یاد میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔ اسی بیماری کے ہاتھوں برسوں پہلے وہ اپنی ایک بہن اور بھائی بھی کھوچکے تھے۔

محمدعاصم بٹ
 (کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)
 

Post a Comment

0 Comments