Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

شیخ محمد ابراہیم ذوق کی شاعری

نام: شیخ محمد ابراہیم ولادت: 1788ء، دہلی وفات:15اکتوبر1854ء، دہلی ایک مرتبہ مرحوم (ابراہیم ذوق) نے مشاعرے میں غزل پڑھی۔ مطلع تھا: نرگس کے پھول بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر شاہ (نصیر) صاحب نے کہا ’’میاں ابراہیم! پھول بٹوے میں نہیں ہوتے۔ یہ کہو: نرگس کے پھول بھیجے ہیں دونے میں ڈال کر انہوں نے کہا ’’دونے میں رکھنا ہوتا ہے، ڈالنا نہیں ہوتا۔ یوں کہیے کہ: بادام یہ جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکا کر ……

 (استاد ذوق) فرماتے ہیں کہ ایک دن بادشاہ نے غزل کا مسودہ دیا اور فرمایا ’’اسے ابھی درست کر کے دے جانا۔‘‘ برسات کا موسم تھا، ابر آرہا تھا، دریا چڑھا ؤپر تھا، میں دیوانِ خاص میں جا کر اُس رخ پر ایک طرف بیٹھ گیا اور غزل لکھنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی۔ دیکھا تو پشت پر ایک صاحب دانائے فرنگ کھڑے ہیں۔ مجھ سے کہا ’’آپ کیا لکھ رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا، ’’غزل ہے۔‘‘ پوچھا، ’’آپ کون ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’نظم میں حضور کی دعا گوئی کیا کرتا ہوں۔‘‘ فرمایا، ’’کس زبان میں؟‘‘ میں نے کہا، ’’اُردو میں‘‘ پوچھا، ’’آپ کیا کیا زبانیں جانتے ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’فارسی اور عربی بھی جانتا ہوں۔‘‘ فرمایا، ’’ان زبانوں میں بھی شعر کہتا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’کوئی خاص موقع ہو تو ان میں بھی کہنا پڑتا ہے، ورنہ اُردو ہی میں کہتا ہوں کہ یہ میری اپنی زبان ہے، جو کچھ انسان اپنی زبان میں کہہ سکتا ہے، غیر کی زبان میں نہیں کہہ سکتا۔‘‘ پوچھا، ’’آپ انگریزی جانتے ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں۔‘‘ فرمایا، ’’کیوں نہیں پڑھا؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہمارا لب و لہجہ اُس سے موافق نہیں۔ وہ ہمیں آتی نہیں۔

‘‘ صاحب نے کہا، ’’ویل! یہ کیا بات ہے۔ دیکھیے، ہم آپ کا زبان بولتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’پختہ سالی میں غیر زبان نہیں آ سکتی، بہت مشکل معاملہ ہے۔‘‘ اُنہوں نے پھر کہا، ’’ویل! ہم آپ کا تین زبان ہندوستان آ کر سیکھا۔ آپ ہمارا ایک زبان نہیں سیکھ سکتے۔ یہ کیا بات ہے؟‘‘ اور تقریر کو طول دیا۔ میں نے کہا، ’’صاحب! ہم زبان کا سیکھنا اُسے کہتے ہیں کہ اس میں بات چیت، ہر قسم کی تحریر اس طرح کریں ،جس طرح خود اہلِ زبان کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں، ’’ہم نے آپ کا تین زبان سیکھ لیا‘‘ بھلا یہ کیا زبان ہے اور کیا سیکھنا ہے۔ اسے زبان کا سیکھنا اور بولنا نہیں کہتے، اسے تو زبان کا خراب کرنا کہتے ہیں۔‘‘ …… رمضان کا مہینا تھا۔ گرمی کی شدت، عصر کا وقت۔

نوکر نے شربت نیلوفر کٹورے میں گھول کر کوٹھے پر تیار کیا اور کہا، ’’ذرا اوپر تشریف لے چلیے۔‘‘ چوں کہ وہ اس وقت کچھ لکھ رہے تھے، مصروفیت کے سبب نہ سمجھے اور سبب پوچھا، اُس نے اشارہ کیا، فرمایا، ’’لے آئیں۔ یہ ہمارے یار ہیں، ان سے کیا چھپانا۔‘‘ جب اُس نے کٹورا لا کر دیا تو مطلع کہا کہ فی البدیہہ واقع ہوا تھا: پلا مے آشکارا ہم کو، کس کی ساقیا چوری خدا کی جب نہیں چوری تو پھر بندے کی کیا چوری ایک دن معمولی دربار تھا، استاد بھی حاضر تھے۔ ایک مرشد زادے تشریف لائے۔ وہ شاید کسی اور مرشد زادی یا بیگمات میں سے کسی بیگم صاحب کی طرف سے کچھ عرض لے کر آئے تھے۔ انہوں نے آہستہ آہستہ بادشاہ سے کچھ کہا اور رخصت ہوئے۔

 حکیم احسن اللہ خاں بھی موجود تھے۔ انہوں نے عرض کی، ’’صاحب عالم! اس قدر جلدی؟ یہ آنا کیا تھا اور تشریف لے جانا کیا تھا۔‘‘ صاحب عالم کی زبان سے اُس وقت نکلا،: ’’اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے۔‘‘ بادشاہ نے استاد کی طرف دیکھ کر فرمایا، ’’استاد دیکھنا، کیا صاف مصرع ہوا ہے۔‘‘ استاد نے بے توقف عرض کیا کہ حضور: لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے یہ اواخر عمر کا غزل ہے۔ اس کے دو تین ہی برس بعد انتقال ہو گیا۔ …… ایک دفعہ قلعے میں مشاعرہ تھا۔ حکیم آغا جان عیش (بادشاہی اور خاندانی طبیب)کہ کہن سال، مشاق اور نہایت زندہ دل شاعر تھے۔ استاد کے قریب ہی بیٹھے تھے۔ زمین ِغزل تھی:

’یار دے، بہار دے، روزگار دے‘ حکیم آغا جان عیش نے ایک شعر اپنی غزل میں پڑھا: اے شمع! صبح ہوتی ہے، روتی ہے کس لیے تھوڑی سی رہ گئی ہے، اسے بھی گزار دے اُن کے ہاں بھی اسی مضمون کا ایک شعر تھا۔ باوجود اُس رتبے کے لحاظ اور پاسِ مروت حد سے زیادہ تھا۔ میرے (محمد حسین آزاد کے) والد مرحوم (مولوی محمد باقر) پہلو میں بیٹھے تھے، اُن سے کہنے لگے کہ مضمون لڑ گیا۔ اب میں وہ شعر نہ پڑھوں۔‘‘ اُنہوں نے کہا، ’’کیوں نہ پڑھو۔ نہ پہلے سے اُنہوں نے آپ کا مضمون سنا تھا، نہ آپ نے اُن کا۔ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اِس سے بھی طبیعتوں کا اندازہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک منزل پر پہنچے، مگر کس کس انداز سے پہنچے۔‘‘ چناں چہ حکیم صاحب مرحوم کے بعد میں اُن کے آگے شمع آئی ۔ اُنہوں نے پڑھا: اے شمع! تیری عمرِ طبیعی ہے ایک رات رو کر گزار یا اِسے ہنس کر گزار دے

   ’’آبِ حیات،‘‘ محمد حسین آزاد، اتر پردیش اُردو اکادمی، لکھنؤ، تیسرا فوٹو آفسٹ ایڈیشن   

Post a Comment

0 Comments