مشہور مؤرخ فرشتہ کے مطابق ظہیر الدین محمد بابر ایک عالم اور ادبی ذوق کا حامل تھا۔ اس نے فقہ اور شاعری کے فن کے متعلق کئی کتابیں لکھیں۔ اس نے فن خطاطی کی حوصلہ افزائی کی اور خود نیا طرز تحریر خط بابری کے نام سے ایجاد کیا۔ کہتے ہیں بابر کتابوں کا شیدائی تھا اور اپنے کتب خانہ میں خصوصی دلچسپی رکھتا تھا۔ 1525ء میں اس نے غازی خان کے کتب خانے کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس میں بہت قیمتی کتابیں موجود ہیں۔
بابر قابل ہستیوں کا قدر دان تھا۔ بابر جب برصغیر میں وار د ہوا تو وہ اپنے اجداد کی بیش بہا کتب اور بہت سی قیمتی اشیاء اور نوادرات بھی ساتھ لایا۔ تزک بابری میں بابر نے خود لکھا ہے کہ جب وہ سفر میں ہوتا تو اس وقت بھی کتابیں اس کے ساتھ رہتی تھیں۔ بابر نہ صرف عربی، فارسی اور ترکی زبان کا ماہر تھا بلکہ کئی تصنیف بھی اس کی قلمی کاوشوں کا نتیجہ تھیں۔ ’’تزک بابری‘‘ اور ترکی زبان میں اس کا دیوان خاص طور پر بہت مشہور ہیں۔ مغلیہ دور کے کتب خانوں میں شاہان مغلیہ کا شاہی کتب خانہ تاریخی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ شاہی کتب خانہ اس نے 1525ء میں قائم کیا تھا۔ اس میں تقریباً 24 ہزار نایاب اور قیمتی مخطوطات تھے۔ شاہی کتب خانے میں مختلف موضوعات پر کتابیں تھیں جن میں شاعری ، طب، فلکیات، موسیقی، لسانیات، فلسفہ، تصوف اور مذہبیات شامل ہیں۔ اس شاہی کتب خانے کے علاوہ اس کا اپنا ذاتی کتب خانہ تھا جس میں اس نے اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے منتخب کتب رکھی ہوئی تھی۔
0 Comments