’’میں 20مارچ 1923ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم ایک دینی درس گاہ مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں حاصل کی۔ میں نے کلام پاک کا ناظرہ کیا۔ اس کے بعد پرائمری سکول میں بٹھا دیا گیا۔ ساتھ ہی گھر میں ایک پرائیویٹ ٹیوٹر سے انگریزی کی تعلیم بھی حاصل کرتا رہا۔1938ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور کرسچین کالج میں داخلہ لیا۔ دو سالہ امتحان میں فیل ہونے کے بعد طبیعت تعلیم سے اچاٹ ہو گئی، لیکن بعد میں سیاسیات میں ایم اے کیا۔
1940ء میں پہلا افسانہ لکھا ،جو لاہور کے ہفت روزہ ’’خیام‘‘ میں چھپا۔ پہلے افسانے کی اشاعت سے حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر ان دنوں خوب جم کر افسانے لکھے جو ’’خیام‘‘ کے علاوہ ماہنامہ ’’عالمگیر‘‘ لاہور میں شائع ہوتے رہے۔ ان دنوں ادیبوں، شاعروں کے لکھنؤ میں دو ٹھکانے تھے۔ ’’دانش محل‘‘ یہ امین آباد میں کتابوں کی دکان تھی، جس میں پروفیسر احتشام حسین، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور غلام احمد فرقت کا کوروی ر وزانہ شام کو پابندی سے آتے تھے۔ ان کے علاوہ نیاز فتح پوری، جعفر علی خان اثر لکھنوی، کرشن پرشاد کول اور دوسرے بزرگ اہل ِقلم بھی شریک محفل ہوتے تھے۔
اہل قلم کا دوسرا ٹھکانہ کافی ہاؤس حضرت گنج میں تھا، جہاں ڈاکٹر عبدالعلیم، اسرار الحق مجاز، سلام مچھلی شہری، شورش صدیقی، علی جواد زیدی، کمال احمد صدیقی، منظر سلیم اور دوسرے سینئر اور جونیئر ادبا و شعرا شام کو کافی کی پیالی پر محفل آرائی کرتے تھے۔ میں دانش محل میں کبھی کبھی اور کافی ہاؤس میں پابندی سے روزانہ جاتا تھا۔ 1944ء میں فیض آباد سے ماہنامہ ’’جدید ادب‘‘ کا اجرا ہوا۔
جدید ادب کے حوالے سے فراق گور کھپوری، ڈاکٹر اعجاز حسین اور الہٰ آباد اور فیض آباد کے اہل ِقلم سے روابط پیدا ہوئے۔ ’’جدید ادب‘‘ کی مجلس ادارت میں میرے علاوہ کاوش انصاری بھی شامل تھے۔ میں نے 1945ء میں ’’جدید ادب‘‘ سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ 1950ء میں، میں پاکستان آ گیا۔ پہلا پڑاؤ لاہور تھا۔ یہ اپریل کا مہینہ تھا۔ لاہور سے میں کراچی آ گیا اور اب تک یہیں قیام پذیر ہوں۔ کراچی میں صحافت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔
آغاز انگریزی صحافت سے ہوا۔ روزنامہ ’’پاکستان سٹینڈرڈ‘‘ روزنامہ ’’ٹائمز آف کراچی‘‘ کے قائم مقام ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ 1963ء میں انگریزی صحافت سے کنارہ کش ہو کر اُردو صحافت سے وابستہ ہو گیا اور روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی کا چیف ایڈیٹر مقرر ہوا۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ کراچی، لاہور اور ’’مساوات‘‘ کیلئے کالم نویسی کی پھر ’’مساوات‘‘ کراچی اور ساہیوال کا چیف ایڈیٹر مقرر ہوا۔ میرے افسانوی مجموعے، تیسرا آدمی، اندھیرا اور اندھیرا ،راتوں کا شہر اور کیمیا گر ہیں۔ ناولوں میں خدا کی بستی، چار دیواری، جانگلوس (تین جلدوں میں ) شامل ہیں۔ ایک ناولٹ ’’کمین گاہ‘‘ لکھا۔
1966ء میں افریشیائی ادیبوں کی کانفرنس منعقدہ بیجنگ میں بحیثیت پاکستانی مندوب شرکت کی۔ 1987ء میں دانشوروں اور سکالروں کی عالمی کانفرنس منعقد ماسکو میں پاکستانی نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی۔ علاوہ ازیں یورپ، امریہ، انگلستان، چین، عراق، شام، الجزائر اور دوسرے بیرون ممالک کا سفر کر چکا ہوں۔‘‘ یہ افسانہ نگار شوکت صدیقی کا مختصر مگر جامع سوانحی خاکہ ہے۔ شوکت صدیقی پر تحقیقی کام کرنے والوں کو اس سے ضرور مدد ملے گی۔ شوکت
صدیقی سے ملاقات ہوئے دیر ہو گئی ہے۔ ایک بار اس نے مجھے کہا تھا کہ یار ہم تو اب بوڑھے ہو گئے، مگر میں ایسا نہیں سمجھتا مجھے یہاں ناول نگار وکٹر ہویو گو کا ایک جملہ یاد آرہا ہے اس نے کسی جگہ لکھا تھا کہ ’’روشنی کبھی بوڑھی نہیں ہوتی‘‘ اور پھر مجھے تو اس معصوم بچے سے ملنا ہوتا ہے جو شوکت صدیقی کے اندر چھپا ہوا ہے۔ شوکت صدیقی بے شک بوڑھا ہو جائے، مگر مجھے یقین ہے کہ اس کے اندر جو بھولا بھالا بچہ ہے، وہ ویسے کا ویسا ہی ہو گا کیونکہ باہر کا آدمی لاکھ بوڑھا ہو جائے، مگر اس کے اندر چھپا ہوا بچہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔
0 Comments