انگریزی زبان کا شاعر ولیم ورڈز ورتھ دو حوالوں سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ فطرت سے محبت اور ایس ٹی کولرج سے دوستی۔ ورڈز ورتھ، کولرج کو اپنا روحانی بھائی کہا کرتا تھا۔ دونوں نے اکٹھے شاعری شروع کی۔ دونوں ایک ہی فلسفے کی انگلی پکڑ کر آگے بڑھے۔ منصوبہ بندی کے تحت نظمیں لکھیں۔ تنقیدی نظریات دئیے، ایک عرصہ اکٹھے رہے، دونوں نے اکٹھے کتاب چھپوائی جس کا نام Lyrical Ballads تھا۔جب اس کتاب کے لئے دونوں نے نظمیں لکھیں تو اپنا اپنا دائرہ عمل مقرر کر لیا۔
ورڈز ورتھ نے حقیقی زندگی کا انتخاب کیا اور عام زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو نظموں کا حصہ بنایا۔ کولرج نے مافوق الفطرت عناصر کی مدد لی۔ اور اپنی نظموں میں حیرت اور طلسمی فضا کو شامل کیا۔ مثلاً ورڈ ز ورتھ اپنی نظم Good Blacke and Harry Gill میں ایک عورت کی کہانی بیان کرتا ہے جو ایک کنجوس کسان کے کھیت سے چند چھڑیاں چرا لیتی ہے۔ کسان اسے بُری طرح مارتا ہے اور عورت اسے بددعائیں دیتی ہے۔ کولرج کی مشہور نظم Ancient Marinerمیں وہ Pacific سمندر کی طرف جانے والے ملاحوں کا ذکر کرتا ہے جو ایک پرندےAlbatrossکو مارتے ہیں اور پھر اس جرم کی پاداش میں مصیبتوں سے دو چار ہوتے ہیں۔
پرندے کو مارنے والا ملاح ایک ایسے درد میں مبتلا ہوتا ہے جو اس کے لئے موت سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اس درد میں کمی اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے جرم کی کہانی سناتا ہے۔ کولرج کی یہ نظم بیان، اسلوب، موسیقیت اورخوبصورت تشبیہہ و استعاروں سے مزین ہے جب کہ ورڈز ورتھ اپنی نظم میں سادہ بیانی، علاقائی اور زمینی فضا قائم رکھتا ہے۔ انگریزی شاعری میں ورڈزوتھ کو ایک اہم ترین مقام حاصل ہے۔ ورڈ زورتھ رومانویت اور رومانوی تحریک کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنے تنقیدی نظریات اور شعری رجحان سے انگریزی شاعری پر خاطر خواہ اثر چھوڑ ا اور پوری دنیا نے اس کی شاعری اور تنقیدی نظریات کو تسلیم کیا۔
اس نے انسان اور فطرت کو ایک نئے زاویے سے دیکھا اور دونوںکو ایک رشتے میں باندھنے کا فرض ادا کیا۔ اس نے اپنے مشاہدے اور تجربے پر اعتماد کیا، حقیقی زندگی اور ارد گرد بکھرے فطرت کے نظاروں اور اشیامیں حقیقی مسرت اور خوشی کا کھوج لگایا۔ اس نے بتلایا کہ انسان ان چیزوں میں خوشی تلاش کر رہا ہے جہاں وہ موجود نہیں ہوتی۔ اس نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں حقیقی مسرت کی وضاحت کی۔
ورڈز ورتھ بچپن ہی سے فطرت کے قرب کا عادی رہا۔ اس نے بچپن ہی میں فطرت کو بہت قریب سے دیکھ لیا تھا اور چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوبصورتی، سچائی اور مسرت کے بے پناہ خزانے ڈھونڈ لیے تھے اور اب وہ اپنی شاعری سے لوگوں کو ان کا پتا بتلانا چا ہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ غم اور خوشی کا ذریعہ کیا ہے؟ وہ اپنے قارئین کو اس سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔ ولیم ورڈ زورتھ سات اپریل 1770ء کو اپنے متوسط گھرانے میں Lake District کے ایک گائوں Cock Mouth میں پیدا ہوا۔
ابتدائی چند سال ناز و نعم میں پرورش پائی پھر ماں باپ فوت ہو گئے اور چچا نے اس کی پرورش کی۔ اس کا ابتدائی سکولHawk Shead میں تھا۔ سکول کے اردگرد فطرت کے خوبصورت نظارے بکھرے ہوئے تھے۔ فطرت سے محبت کا آغاز اسی گائوں سے ہوا۔ 1787ء میں وہ کیمبرج پڑھنے چلا گیا لیکن کالج کے نصاب سے اسے کوئی غرض نہیں تھی۔ اس نے وہی پڑھا جو اسے پسند تھا۔ یہاں اس کی ملاقات Mary Hutchinson سے ہوئی۔
یہی وہ لڑکی ہے جس سے ورڈزورتھ نے بعد میں شادی کی۔ تین سال بعد ورڈزورتھ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کے سیر سپاٹے پر چلا گیا اور پھر اٹلی کا دورہ کر کے واپس آ گیا اور بڑی دلچسپی سے فرانسیسی زبان سیکھنے لگا۔ پیرس میں اسے دلچسپی کی ایک اور چیز مل گئی جس میں اس نے فرانسیسی زبان سے زیادہ دلچسپی ظاہر کی اوروہ Annete Vellonتھی۔ ورڈ زورتھ نے اس سے شادی نہیں کی، صرف رومانی تعلقات رکھے۔ ورڈ زورتھ پر انقلابِ فرانس نے بہت اثر چھوڑا۔ وہ انقلاب سے بہت متاثر تھا۔
اس کے لندن کے دوستوں نے منع کیا کہ وہ انقلاب میں عملی طور پر حصہ نہ لے اور اس کے لندن سے آنے والے سارے فنڈز روک دئیے۔ ورڈزورتھ کو انقلاب سے اس حد تک دلچسپی تھی کہ اس میں اس کے نزدیک عام آدمی کی بھلائی تھی لیکن بعد میں وہ انقلاب سے مایوس ہو گیا۔ مایوسی کی وجہ یہ تھی کہ انقلاب کے نام پر ہزاروں آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور دوسری سب سے بڑی وجہ فرانس کا برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ اس اعلان سے ورڈ زورتھ کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ 1795ء میں وہ اپنی بہن کے ساتھ Racedownکے مقام پر رہنے لگا۔
1802ء میں ورڈ ورتھ جرمنی کی سیر سے واپس آیا اور اپنی پرانی دوست اور کلاس فیلوMary Hutchinsonسے شادی کر لی۔ شادی کے بعد کولرج سے اختلافات شروع ہو گئے۔ کولرج ورڈزورتھ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ بچپن کے کچھ ابتدائی دنوں کو چھوڑ کر اسے تمام زندگی میں کسی معاشی مسئلے سے دو چار نہ ہونا پڑا۔ ماںباپ کی وفات کے بعد اسے وراثت میں اچھی خاصی جائیداد مل گئی۔(Durham) یونیورسٹی نے اسے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دے دی۔ ورڈزورتھ نے ساری عمر شاعری کی۔
تنقیدی نظریات تشکیل دئیے، رومانوی تحریک کا امام کہلایا۔ عام انسانوں کی معصومیت اور زندگی کی اپنی شاعری میں عکاسی کی۔ قلم ہمیشہ چلتا رہا، بس جب اس کی بیٹی ڈورا(Dora)فوت ہو ئی تو اس کا دل شاعری سے اچاٹ ہو گیا۔ ورڈزورتھ کے شعری کارنامے قابل رشک ہیں۔ وہ اپنی شاعری اور تنقیدی نظریات کو وقت کے ساتھ ساتھ ترمیم واضافے کے ساتھ چھپواتا رہا۔ جب کولرج سے دوستی تھی تو بہت سے تنقیدی نظریات پر اس کا کولرج سے اتفاق تھا مگر جب دوستی ختم ہوئی تو اس سے ورڈز ورتھ کا نظریاتی اختلاف شروع ہو گیا۔
شعری زبان کے مسئلے پر ورڈ زورتھ عام انسانوں کی زبان کا قائل تھا اور کہتا تھا کہ شاعری میں بول چال کی زبان استعمال کی جانی چاہیے لیکن کولرج اس سے اتفاق نہیں کرتا تھا۔ ورڈزورتھ نے قدیم شاعری سے ہاتھ چھڑا کر رومانوی تحریک کو تقویت بخشی اور ساری دنیا اس تحریک کی لپیٹ میں آ گئی۔انگریزی تنقید میں اس نے شاعری کے موضوعات اور زبان پر کھل کر بحث کی۔ فطرت اور انسانوں کا رشتہ جوڑنے کی کوشش کی۔
شاعری میں تخیل کی اہمیت کو واضح کیا۔ اسے ایس ٹی کولرج کے مقابلے میں بڑا نقاد نہیں مانا جاتا لیکن اس کے باوجود اسے انگریزی تنقیدی تاریخ میں ایک اہم مرتبہ اور مقام حاصل ہے۔ ورڈز ورتھ کی دوسری اہم کتابPrelude ہے جو اس کی فکری تعمیر کی داستان بھی ہے اور اس کتاب کو ورڈزورتھ کی روحانی سرگزشت بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں ورڈز ورتھ نے اپنے بچپن، لڑکپن اور جوانی کی یادوں کو شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ فطرت سے اپنے قرب کو ظاہر کیا ہے۔ سکول کی ایک استانی اسے اکساتی تھی، ترغیب دیتی تھی کہ وہ فطرت اور اس کے حسن کو اپنے اندر رچالے۔
اس سے لطف اندوز ہو، چنانچہ ورڈ زورتھ سکول سے بھاگ کر جنگل میں چلا جاتا، درختوں پر چڑھتا، پرندوں کے گھونسلوں سے انڈے چراتا، کشتی پر بیٹھ کر دریا کی سیر پر نکل جاتا۔ یہ سب کچھ اس کی یادداشت کا حصہ بن گیا اور پھر اس کی شاعری میں آ گیا۔ وہ پرندے اور پرندوں کی آوازیں اس کے ذہن میں محفوظ ہو گئیں اور بچپن میں سنی ان آوازوں کو بڑھاپے میں تلاش کرتا رہا اس کی ایک نظم "Cuckoo" اس کی بہترین مثال ہے یہ آواز اس نے بچپن میں سنی تھی۔
اب جب وہ ایسی آواز سنتا تو بچپن واپس لوٹ آتا۔ بچپن اور بڑھاپے کے درمیان یہ آواز ایک رابطے اور پل کا کام کرتی ہے۔ ورڈزورتھ کی حیثیت بطور شاعر اور نقاد منفرد ہے۔ اس کی دونوں حیثیتیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ بحیثیت نقاد اس نے اپنا نظام تنقید دیا اور اپنے آپ کو منوایا۔ بحیثیت شاعر اس نے شاعر کی نئی دکان کھولی
اور ایک ہجوم اس کی طرف اُمڈآیا۔
احمد عقیل روبی
0 Comments