نئے سال 2016ء کے سلسلہ روز و شب میں بعض ایسے اہلِ قلم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دارِ فانی سے عالم جاودِانی کو کوچ کر گئے جو اپنی اپنی جگہ بھاری پتھر تھے راولپنڈی، اسلام آباد سے صاحب ِ فن بزرگ شاعر نیساں اکبر آبادی، جہلم سے مختار جاویدکراچی میں ترقی پسندانہ سوچ کی حامل، پنجابی نظم کی منفرد شاعرہ ریڈیو پاکستان خیر پور کی پہلی مسیحی خاتون اسٹیشن ڈائریکٹر، ڈپٹی کنٹرولر محترمہ نسرین انجم بھٹی،اپنے انداز کے سادہ و پُرکار کالم نگار ’’حالِ دل‘‘ کے حامل محمد مسعود بھسین پاکستان ٹی وی کے کامیاب ڈراما پروڈیوسر محمد عظیم ]برکت مسیح سے برکت عظیم اور برکت عظیم سے محمد عظیم تک کا سفر طَے کرنے والے[ پروگریسو شاعر اور ابتدائی طور پر صحافی و مُدیر بھی، اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔! ابھی ہم شعیب بن عزیز کا ایک مشہور شعر ہی دُوہرانے کو تھے کہ
کوئی روکے کہیں دستِ اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
کہ اچانک سناؤنی آ گئی کہ اُردو ادب کے لیجنڈریافسانہ نگار، ناول نویس،کہانی کار اور کالم نویس انتظار حسین بھی چند روز نیشنل ہسپتال میں علالت کے گزار کر راہیئ مُلکِ عدم ہو گئے۔۔۔
انتظار حسین، بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی جنم بھومی ہاپڑ کے قربُ و جوار کے تھے۔ ہاپڑ کے پاپڑ کی طرح خستہ اور کرارے۔۔۔ کیا زبان لکھتے تھے۔ اندازِ بیان و زبان میں یکتا ۔۔۔تحریر کیا ہوتی تھی،جادو کرتے تھے۔ جادو نگار تھے، جادو گر افسانہ نگار تھے۔ اُردو کے افسانوی ادب کو وہ یتیم کر گئے۔ میرٹھ کے قریب کی ایک بستی ڈبائی ضلع بلند شہر میں 1925ء میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کالج سے گریجوایشن کیا وہاں ڈاکٹر جمیل جالبی بھی اُن کے ساتھ تھے اور سلیم احمد بھی جو اُس دَور میں ہُنر میرٹھی ہُوا کرتے تھے۔
قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی اُبھر کر سامنے آنے والے افسانہ نگار انتظار حسین شروع شروع میں میرٹھ سے ہجرت کر کے لاہور آ بسنے والے، ہفت روزہ ’’نظام‘‘ سے اور پھر جلد ہی روزنامہ ’’آفاق‘‘ سے وابستہ ہوئے۔’’ آفاق‘‘ میں علی سفیان آفاقی کی ہمراہی میں ادبی و فلمی ایڈیشن کے بانی ٹھہرے۔ لاہور کے حوالے سے ادبی و ثقافتی و سماجی سرگرمیوں پر مبنی اپنے مشہورِ زمانہ کالم ’’لاہور نامہ‘‘ کا آغاز روز نامہ ’’مشرق‘‘ کے اجرا کے ساتھ ہی کیا۔ اِسی روزنامے میں ’’ملاقاتیں‘‘ کے عنوان سے بھی نامور شخصیتوں کے انٹرویو اپنے مخصوص منفرد انداز میں کرتے رہے۔۔۔ ایسے ہی ایک انٹرویو میں جمیل الدین عالی کے بارے میں لکھتے ہیں
’’عالی نے ایسے خاندان میں آنکھ کھولی اور کیا کیا شوق دیکھے؟ شطرنج، پَچیسّی،گھوڑ سواری، پتنگ بازی، شاعری، مگر ابھی بارہ برس کا سِن تھا کہ یتیمی کا داغ لگ گیا، پھر باقی شوق کیسے پنپنے؟ یتیم بچے کے لئے خالی شاعری رہ گئی۔ دِّلی کا زمانہ تصور میں لایئے، خود خاندان میں سائل جیسا شاعر بیٹھا تھا۔ دُور کے رشتے میں چچا ہوتے تھے، اُن سے ہی متاثر ہو کر جمیل الدین نے پہلے اپنا تخلص مائل رکھا مگر چچا ضمیر الدین احمد خاں نے عالی سے کہا کہ دادا کا تخلص رکھ لو۔دادا علاؤالدین خان علائی کے لئے غالب نے تین تخلص تجویز کئے تھے علائی۔ عالی، نسبی۔۔۔ دادا کے چھوڑے ہوئے تخلصوں میں سے جمیل الدین مائل(دہلوی) نے اپنے لئے عالی تخلص چُن لیا پھر وہ جمیل الدین عالی ہوگئے ۔ مائل دہلوی سے جمیل الدین عالی بن گئے،۔۔۔!
ایک افسانوی مجموعے ’’کچھوے‘‘ کا ’’انتساب‘‘ملاحظہ ہو
’’پھر نارو نے پوچھا
’’اچھا روشنی سے بھی بڑھ کر کوئی چیز ہے؟‘‘
’’ہاں ہے‘‘ سنت کمار نے کہا
ہَوا روشنی سے بڑھ کر ہے کہ آدمی ہَوا میں پیدا ہُوا۔ ہَوا ہی میں پلا بڑھا، ہَوا ہی میں جیتا ہے، ہَوا ہی کے کارن ہم بولتے ہیں، سنتے ہیں‘‘۔۔۔
’’اچھا ہَوا سے بھی بڑھ کر کوئی چیز ہے؟‘‘ ہاں ہے، یاد ہَوا سے بڑھ کر ہے کہ آدمی سے اُس کی یاد چھین لو۔ پھر نہ وہ سنے گا، نہ سوچے گا نہ سمجھے گا‘‘۔ اس کی یاد اُسے لَوٹا دو، وہ سُنے گا، سوچے گا،سمجھے گا‘‘۔۔۔!انتظار صاحب کی یاد داشت ’’اچھی‘‘ تھی۔ اُن کی یادوں پر مبنی ’’چراغوں کا دُھواں‘‘ کامیاب ہی نہیں عُمدہ خود نوشت ہے۔ اُردو میں ایسی خود نوشت کم کم دستیاب ہیں۔
مَیں نے جب ’’اُردو کے ’’ناقابلِ فراموش افسانے‘‘ کے عنوان سے1993ء میں ایک کتاب مرتب کر کے چھپوائی تو اس میں شامل سترہ افسانوں میں سے ایک ’’زرد کتّا‘‘ انتظار حسین کا افسانہ بھی شامل تھا۔اس حوالے سے میں نے اپنے دیباچے میں لکھا
’’انتظار حسین کا ’’زرد کتّا‘‘ میرے انتخاب کی زینت ہے دراصل اس افسانے کو شامل کرنے میں بڑی دقت پیش آئی کہ میرے نزدیک ’’آخری آدمی‘‘ اور ’’زرد کتّا‘‘ میں سے انتخاب مشکل ہو رہا تھا۔جی چاہتا تھا کہ دونوں ہی افسانے شریکِ انتخاب ہوں، مگر اس طرح دوسروں کے ساتھ زیادتی ہو جاتی،کیونکہ ہر افسانہ نگار کا ایک ایک افسانہ ہی شامل کرنا مقصود تھا اس لئے انتظار حسین کا ’’زرد کتّا‘‘ شامل کیا ،جبکہ میری اہلیہ محترمہ صباحت صبا کا اصرار تھا کہ ’’آخری آدمی‘‘ کو شامل کروں
انتظار حسین نے اپنے ایک افسانوی مجموعے ’’شہرِ افسوس‘‘ کے فلیپ پر13جنوری1973ء کو لکھا
مَیں کہانی کیا لکھتا ہوں اپنی بکھری ہوئی مٹی کے ذرئے چُنتا ہوں مگر مٹی بہت بکھر گئی ہے اور مَیں مجہتد نہیں، کہانی لکھنے والا ہوں، مٹی جمع کرنا اور کہانی لکھنا،ایک لاحاصل عمل ہے، حاصل کی پرواکرنے والے کہتے ہیں کہ صرف وہ عمل بامعنی ہے، جس کا کچھ حاصل ہو اور کہانی کا کوئی مقصد ہونا چاہئے، لیکن مَیں اپنی بکھری ہوئی مٹی کا اسیر ہوں،مجھے اس سے مفر نہیں ہے، اس سے باہر مجھے کوئی عمل بامعنی نظر نہیںآتا۔ اس عمل کے لئے بے معنی پن ہی میں مجھے معنی کی تلاش ہے۔
مجھے قنوطیت پسند کہلانے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا۔ میرا احساس ہے کہ دِل لخت لخت اب جمع نہیں ہو سکتا اور بکھری ہوئی مٹی اکٹھی نہیں ہو سکتی، مگر مَیں یہ یاد رکھنا چاہتا ہوں کہ ایک وقت تھا یہ دل لخت لخت نہیں تھا اور یہ مٹی ایک شاداب قلعہ تھی جس میں میری جڑیں پیوست تھیں اب مَیں ’اکھڑا ہوا آدمی ہوں اور کہانیاں کہہ کر اپنی اُکھڑی جڑوں کے گِرد مٹی اکٹھی کرنے کی تگ و دو کرتا ہوں‘‘۔
مَیں نے13فروری1993ء کو ملاقات کر کے جناب انتظار حسین سے سوال کیا کہ افسانہ ’’زرد کتّا‘‘ مجھے پسند ہے آپ کو کیوں پسند ہے؟
جناب انتظار حسین نے کہا:’’یوں پسند ہے کہ لوگوں کو پسند ہے‘‘ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا: ہمارا افسانہ مغرب سے مُستعار چلا آ رہا تھا۔ میری کوشش یہ تھی کہ مَیں افسانے میں اپنا رشتہ اپنی روایت سے اس طرح جوڑوں کہ وہ قدیم و جدید کا امتزاج بن جائے۔ شاید اس خواہش کے نتیجے میں یہ افسانہ لکھا گیا اور شاید کسی حد تک اس میں مجھے کامیابی بھی ہوئی‘‘۔
جناب انتظار حسین نے کہا: ’’اس افسانے (زرد کتّا) میں ایک کشش مجھے اس اعتبار سے محسوس ہوتی ہے کہ اس کا رشتہ ہمارے صوفیاء کے مکاشفات اور روحانی واردات سے جا ملا ہے۔ پتہ نہیں کس طرح؟‘‘ ۔۔۔ تو یہ تھی جناب انتظار حسین کی اپنی رائے مشہورِ زمانہ اور مقبول ترین افسانے ’’زرد کتّا‘‘ کے بارے میں۔
پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد باقر رضوی نے انتظار حسین کی کتاب ’’آخری آدمی‘‘ کے دیباچے میں اس افسانے ’’زرد کتّا‘‘کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یُوں کیا ہے:’’زرد کتّا‘‘ نفس ِ امارّہ کے حوالے سے فرد کی رُوحانی زندگی کے انحطاط کی کہانی ہے مگر یہ بات معاشرتی انحطاط کی وجہ بھی بن جاتی ہے، نفس کا دوزخ بھرنے والے ’’آخری آدمی‘‘ بندر بن جاتے ہیں اور اس کہانی میں وہ سماعت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ رُوحانی طور پر انحطاط پذیر معاشرے میں صاحبِ کلام مُنہ پر تالا ڈال لیتے ہیں، یُوں لفظ مر جاتے ہیں اور لفظوں کی مَوت سے زندگی کی معنویت ختم ہو جاتی ہے اور مُردے زندوں سے بہتر ہو جاتے ہیں۔
’’وہ ]سید علی الجزائری[ قبرستان میں گئے اور منبر پر چڑھ کر ایک بلیغ خطبہ دیا۔اس کا عجب اثر ہوا، قبروں سے درد کی صدا بلند ہوئی تب سید علی الجزائری نے آبادی کی طرف رُخ کر کے گلو گیر آواز میں کہا:’’اے شہر! تجھ پر خدا کی رحمت ہو تیرے جیتے لوگ بہرے ہو گئے اور تیرے مُردوں کو سماعت مل گئی‘‘۔
جب جیتے لوگ سماعت سے محروم ہو جائیں، لفظ کھوکھلے ہو جائیں اور زندگی کی معنویت ختم ہو جائے تو انسان اپنی انسانیت کی سطح سے گر جاتے ہیں‘‘۔۔۔
دیباچہ ’’ناقابل فراموش افسانے‘‘
مرتب ناصر زیدی
0 Comments