Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ابنِ صفی بمقابلہ ڈیڑھ بالشتیے

موضوع سخن ٹھہرا وہ حالیہ انٹرویو جو جناب ’’کردار چور‘‘ نے ایکسپریس والوں کو دیا۔ بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ ہمیشہ جھوٹ اتنی صفائی سے بولو کہ جھوٹ کا گمان نہ ہو اور جھوٹ بول کر فوراً دوڑ لگادو۔ کیوںکہ ہوسکتا ہے کہ مجمع میں کوئی تم سے زیادہ جھوٹ بولنے والا موجود ہو اور تمہاری گردن اتروا دے۔

بات ہو مزاح کی اور فنِ مزاح کی تو ناول نگاری میں ابنِ صفی صاحب نے یہ فن یکتا پایا اور اُن کے فن کو ڈیڑھ درجن چاند لگانے میں کئی اپنے قد سے بھی چھوٹے ’’ڈیڑھ بالشتیے‘‘ بھی شاملِ حال رہے۔ جن کی وجہ سے قاری معیارِ ادب کو جانچنے کا اہل ہوا۔ کئی ناول نگاروں کی جرات دیکھیئے کہ صفی صاحب کی زندگی ہی میں ان کے تخلیق کردہ کرداروں کی مٹی پلید کرنی شروع کردی اور یہ کام اتنی ’’خود اعتمادی‘‘ سے کیا کہ اپنے باپ کےنام تک بدل ڈالے۔ ہمارے عزیز  پاپ تو کئی ہوسکتے ہیں مگر باپ ایک ہی ہوتا ہے‘‘۔
ابنِ صفی صاحب کی مقبولیت اور فن پر قادر اندازی کا حال یہ ہے کہ جاسوسی ادب ان کے بعد بانجھ ہو کر رہ گیا ہے یا پھر جاسوسی ناول جننے والی تمام دو نمبر مشینیں سستی مصنوعات پر زبردستی ’’عمران‘‘ کا لیبل لگا کر بیچ دیتی ہیں۔ ان کرداروں کے ساتھ زور زبردستی کرنے والے مصنفین سے ابنِ صفی کے کردار اور بالخصوص کنفیوشس کے ماہر، مسٹر علی عمران پی ایچ ڈی، ڈی ایس سی آکسن ہاتھ جوڑ کر بڑی انکساری کے ساتھ عرض کرتے ہوں گے، حضور مجھے معاف کردیں، ’’جتنا زِچ مجھے آپ نے کیا اتنا تو میں نے اپنے سگے باپ رحمن صاحب کو بھی نہیں کیا‘‘۔

ویسے موصوف نے ’’سنی سنائی‘‘ کو مزید ہوا کے دوش پر آگے پہنچایا ہے کہ عمران کا کردار صفی صاحب کا اپنا نہیں تھا بلکہ مانگے تانگے کا تھا۔ موصوف تو کانوں کے کچے اور پیٹ کے ہلکے ہی ثابت ہوئے کیوں کہ ابنِ صفی صاحب نے کسی کو اپنی زندگی میں یہ بات نہیں بتائی اور مزے سے قارئین سے عمران کو دل گردے کے ساتھ ہضم کرواتے رہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ موصوف نے عمران کو جو نئی جہد عطا کی، صفی صاحب کا عمران اس کا اہل نہ تھا۔ وجہ یہ ہے کہ ابنِ صفی صاحب نے بچپن ہی سے عمران کا ’’عمر وعیار‘‘ اور ’’دیو مالائی‘‘ کہانیوں سے ’’ڈیڑھ بالشتیے‘‘ کا فاصلہ رکھا۔

 ویسے گذارش عرض ہے کہ صفی صاحب کے چند ناولوں کا پلاٹ ’’مغربی ادب‘‘ سے متاثرہ تھا اور اس کا ذکر بِلا جھجھک انہوں نے اپنے ناولوں کے ابتدا میں بیان فرمادیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ مغرب میں عمران کو، عمران کے بجائے آلو، بینگن، گوبھی یا ٹینڈے تسلیم کیا جاتا ہو اور اسی وجہ سے صفی صاحب کی چوری ڈھکی چُھپی ہی رہ گئی ہو۔

مزے کی بات ہے کہ موصوف کا ماننا ہے کہ ’’ابنِ صفی صاحب کے موضوعات نچلی سطح کے تھے اور میرے بین الاقوامی سطح کے ہیں‘‘۔ بات تو ٹھیک ہے موضوعات اتنی نچلی سطح کے تھے کہ ابنِ صفی صاحب کی وفات کے کئی سال بعد بینا آنکھیں اب انہیں دیکھ پارہی ہیں۔ جیسے زیرو لینڈ آج کی ایڈوانس ترین سائنسی دنیا کا مظہر ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ موصوف کے موضوعات اور بلند خیالی ہی تھی جو بین الاقوامی مسائل کو اجاگر کرسکی۔ جن میں سرِ فہرست ’’کالا جادو‘‘ ہے۔ جس سے ہزاروں خاندان بنتے اور بگڑتے ہیں۔ جس کی وجہ ساس بہو کے جھگڑے نمٹتے ہیں اور جس کی وجہ سے میاں بیوی میں ناچاقی کا بندوبست ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

پسِ تحریر عرض کروں کہ جس انداز میں یہ انٹرویو ’’دیا‘‘ یا ’’لیا‘‘ گیا اُس سے ابنِ صفی صاحب کے قد میں مزید اضافہ ہوگیا۔ چاروں نا چار موصوف کو تسلیم کرنا پڑا کہ مشہور ہونے کے صرف دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ یا تو بندہ بہت ہی اچھوتا لکھے یا پھر عمرانیت کے جامے میں خود کو زبردستی گھسیڑنے کی کوشش کرے۔ اسی اَدھیڑ بَن میں کبھی کبھی جامے کی سلائی اُدھڑ جاتی ہے اور بلا وجہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 ویسے ہوسکتا ہے کہ موصوف کے عمران پر لکھے گئے 600 ناول میں سے کوئی دو چار ناول واقعی اعلیٰ پائے کے ہوں، مگر انکی انفرادی حیثیت باقی نہیں رہی۔ بات یہ ہے کہ دوسروں کے کاندھوں پر چڑھ کر آپ ’’ڈیڑھ بالشت‘‘ ہی اوپر جاتے ہیں اور پھر دنیا کا دستور ہے کہ وہ آپ کو منوں مٹی تلے دبا کر خاک میں ہی ملا دیتی ہے۔

زید عفان

Post a Comment

0 Comments