کمال ہے حد ہو گئی بے خبری کی، علم تحقیق میں اتنے بڑے بڑے دعوے کرنے کے باوجود ہمیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اس علم میں ہم سے بھی کوئی بڑا ہے بلکہ ہم تو یہ ارادے باندھ رہے تھے کہ اسلام آباد میں کوئی ’’جگاڑ‘‘ وغیرہ کر کے علم تحقیق میں کسی ایوارڈ وغیرہ کے لیے اپنی سو چھید والی جھولی پھیلائیں لیکن ایک اخبار نے ہماری امیدوں پر سیلاب کا پانی پھیر دیا، حالانکہ ہمیں ’’ابن انشاء‘‘ شناسی کا بڑا دعویٰ تھا بلکہ سو چھیدوں والی جھولی کے سلسلے میں اپنا پیر و مرشد مانتے تھے بلکہ ان کی کئی پیروڈیاں بھی کر رکھی ہیں جیسے
کل چودہویں کی رات تھی گاتا رہا ابا ترا
کچھ نے کہا ہے یہ ’’سانڈ‘‘ ہے کچھ نے کہا ’’بکرا‘‘ ترا
لیکن اس اخبار نے انکشافات کی ایک اچھی خاصی ڈھیری لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن انشاء جاسوسی ناول نگار بھی تھے اور ابن انشاء کے ساتھ ساتھ ان کا ایک نام ابن صفی بھی تھا۔ ممکن ہے بعض لوگ ہماری بات پر شک ظاہر کریں یا مذکورہ اخبار سے منفی تنقید اور دیرینہ پرخاش کا نام دے کر کوئی مقدمہ وغیرہ ٹھونک دے اس لیے اخبار کی پوری خبر پیش خدمت ہے، خبر کے دائیں جانب سیف علی خان کی تصویر اور بیان ہے جس میں کرینہ کے نواب صاحب نے کترینہ کیف کو پُرکیف اور کترنے والے حسن کی مالک قرار دیا ہے۔
جانب مشرق محترمہ ممدوحہ ایان علی کا بیان تصویر کے ساتھ ہی عیاں ہے کہ وہ اپنی پچیسویں سالگرہ 30 جولائی (سال نہیں لکھا ہے) کو منائے گی، نیچے مائیکل جیکسن کی بہن کا سات سال بعد میوزک میں آنے کا مژدہ جاں فزا ہے اور اوپر کسی کریکٹر کی تصویر ہے، مذکورہ محققانہ انکشافانہ اور حیرانہ و پریشانہ خبر کچھ یوں ہے کہ فکشن کو ادب میں مقام دلانے والے جاسوسی ناول نگار کا 87 ویں یوم پیدائش 26 جولائی کو منایا گیا۔
اردو ادب میں مصنفین کی تعداد تو بے شمار ہے لیکن جاسوسی ادب میں ابن صفی کے مقام کو کوئی بھی نہیں پہنچ سکا، اردو کے اس منفرد شاعر مصنف اور کالم نگار نے 1927ء میں جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں آنکھ کھولی جن کا اصل نام شیر محمد خان جب کہ قلمی نام ابن انشاء تھا ابن انشاء کو سفر نامہ نگاری اور کالم نگاری میں منفرد مقام حاصل ہے اردو شاعری اور کالم نگاری کو نئی جہت دینے والا یہ نظم گو غزل گو شاعر اپنے پیچھے اردو کا گراں قدر خزانہ چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سویا مگر ان کی ’’رخصتی‘‘ کے بعد بھی ان کا نام زندہ اور تابندہ ہے کیونکہ جاسوسی ادب میں ان کا کوئی جواب پیدا نہیں ہو سکا۔
یہ خبر پڑھ کر ہم پر جو گزری سو گزری ہمارے ’’دعویٰ تحقیق‘‘ کو بھی پسینے آ گئے پہلے تو ہمیں ایک زور کا جھٹکا لگا اور پھر سکتہ سا ہو گیا اور ہمارا دعویٰ تحقیق شرم سے پانی پانی ہو کر فرش پر پھیل گیا، وہ تو ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ ہم نے ان دنوں ’’ابن‘‘ کے بارے میں کچھ لکھا نہیں ہے ورنہ تحقیق کی دنیا میں ہماری بھد اڑ جاتی کہ اتنے بڑے دعویٰ تحقیق کے باوجود ہماری معلومات کتنی ناقص بلکہ ناقص العقل ہیں کہ جسے ہم یو پی کے ’’تارہ‘‘ کے ’’اسرار احمد‘‘ سمجھ رہے تھے وہ جالندھر کے نواحی گاؤں کا شیر محمد خان نکلے گا۔
پہلے تو ہم نے اس معاملے میں سوچا لیکن سوچنے سے کام نہیں نکلا تو پھر سونچنے لگے، پھر بھی مسئلہ نہیں سلجھا تو لنگر لنگوٹ کس کر ’’غور کے حوض‘‘ میں کود گئے کافی غوطے اور ڈبکیاں کھانے کے بعد جو آبدار موتی ہاتھ لگا وہ یہ تھا کہ اصل کیا دھرا اس شخص کا کہا ہے جو دنیا بھر کا جھوٹا ہے۔ ہم سے کہا تھا کہ میں ابن صفی ہوں اور شاعری میں نوح ناروی کا شاگرد ہونے کے ناطے اسرار ناروی تخلص کرتا ہوں اور اصل میں لدھیانہ کے نواحی گاؤں کا شیر محمد خان تھا اور ابن انشاء کے نام سے مشہور تھا۔
دراصل ہمارے ساتھ ٹھیک ویسا ہی دھوکا ہوا تھا جو جنگ میں ایک سپاہی کے ساتھ ہوا تھا۔ دوران جنگ رات کو وہ ایک جنگل میں اپنے کیمپ کی طرف جا رہا تھا کہ اندھیرے میں آواز آئی بھائی ایک بم کے ٹکڑے نے میری ٹانگیں اڑا دی ہیں مہربانی کر کے مجھے اپنے کیمپ لے چلو سپاہی نے اندھیرے میں ٹٹول کر اسے پیٹھ پر لادا اور کیمپ کی طرف چل پڑا دشمن کی گولہ باری بھی چل رہی تھی اور بے چارہ سپاہی اندھیرے میں گرتا پڑتا اور بچتا بچاتا آخر کار اپنے کیمپ کے قریب پہنچا کیمپ کے پہرہ دار نے اسے ہالٹ کیا اور ٹارچ کی روشنی میں دیکھا کہ وہ ایک سربریدہ لاش کو اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہے دراصل راستے میں کسی بم کا ٹکڑا اس زخمی کا سر اڑا گیا تھا پہرہ دار نے سپاہی سے کہا اس سر کٹے لاش کو کہاں لے جا رہے ہو۔
سپاہی حیران ہو کر بولا کیا اور جب لاش کو اتار کر دیکھا تو اس کا سر ندارد تھا، بولا ۔۔۔۔ یہ تو بڑا جھوٹا نکلا مجھ سے کہا کہ اس کی ٹانگ اڑ گئی ہے جب کہ اصل میں اس کا سر اڑا ہوا تھا، اب ابن صفی مرحوم کو ہم جھوٹا تو نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ہم ان کے بہت بڑے فین تھے اور ان کے ساتھ ہماری خط و کتابت بھی رہی تھی اور ان کا وہ خط اب بھی ہمارے پاس کہیں پڑا ہو گا جس میں انھوں نے اپنے بارے میں لکھا تھا کہ ان کا اصل نام اسرار احمد ہے اور شاعری میں حضرت نوح ناروی سے رشتہ ’’تلمذ‘‘ رکھتے ہیں لیکن یہ تو کہنا ہی پڑے گا کہ جاسوسی ادب لکھ لکھ کر وہ خود بھی اسرار سے شاید ’’پراسرار‘‘ بننے کی کوشش کرنے لگے اور ان پر اپنے ہی کردار علی عمران کا اثر ہو گیا تو جو کبھی ڈھمپ بنتے تھے کبھی تہور علی صندوقی اور کبھی بلیک زیرو وغیرہ اور غالباً اسی شوق میں انھوں نے لدھیانہ کے نواحی گاؤں میں آ کر شیر محمد خان کے نام سے ’’آنکھ‘‘ کھولی خبر میں ایک ہی آنکھ کھولنا لکھا ہے اس لیے کہ ایک آنکھ تو وہ پہلے بمقام نارہ پہلے کھول چکے تھے شاید ’’ابن‘‘ کے لفظ سے انھیں بہت زیادہ لگاؤ تھا اس لیے یہاں بھی باقی تو سب کچھ بدل لیا لیکن ابن کے ساتھ صفی کے بجائے انشاء لگایا گویا اپنی پراسرار طبیعت کی تسکین کرتے ہوئے ۔۔۔۔ ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا سلسلہ شروع کیا۔
بلکہ یہاں ایک اور لطیفے کے مطابق بالکل الٹا کام کیا۔ بازار میں ایک شخص نے دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پلٹایا اور اس سے بغل گیر ہو کر بولا کتنی مدت بعد ملے ہو تم نعیم ۔۔۔ دوسرے نے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا میں نعیم نہیں رضا ہوں، اس شخص نے قہقہہ مار کر کہا یار تم نے تو کمال کر دیا میرا خیال تھا کہ تم نے صرف اپنی ’’شکل‘‘ بدل لی ہے لیکن تم نے تو اپنا نام بھی بدل لیا ہے۔
چنانچہ ابن صفی نے بھی نارہ سے لدھیانہ اور پھر کراچی سے لاہور آ کر نہ صرف نام بدل لیا ہو گا بلکہ اپنی شکل و صورت بھی بدل لی ہو گی کیونکہ انھوں نے اپنے کرداروں سے میک اپ کرنے اور حلیہ بدلنے کا فن بھی سیکھا ہوا تھا، قلم کے دھنی تو تھے ہی چنانچہ یہاں سفر نامہ نگاری بھی کرنے لگے اور کالم نگاری بھی ۔۔۔ بلکہ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ اور ایسے ’’پراسرار‘‘ شخص سے بعید بھی نہیں کہ ان کے سفر نامے بھی جھوٹے ہوں اور ایک جگہ بیٹھ کر تصور یا جغرافیے کی مدد سے لکھے ہوں جب کوئی شخص فرضی کرداروں کے علاوہ شکرال اور زیرو لینڈ جیسے مقامات پیدا کر سکتا ہے تو اس کے لیے بیٹھے بیٹھے سفر نامے لکھنا کیا مشکل ہے۔
خود ہم نے ایک عدد سفر نامہ امریکا کا لکھا ہوا ہے جس میں نہ صرف چند ایئر ہوسٹوں سے دل چسپ مکالمے درج کیے ہیں بلکہ بحرالکاہل کے اوپر پرواز کے دوران دو نظمیں بھی لکھی ہیں جن میں کنڈولیزا رائس کے جمال جہاں سوز کا ذکر ہے کیوں کہ اسی کی دعوت پر تو ہم امریکا جا رہے تھے، کمال کی بات یہ ہے کہ واپس آتے ہوئے بحرالکاہل کے اوپر ہم نے ایک اور نظم انجلینا جولی کے بارے میں بھی لکھی ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے اور اگر اس نے امریکا مدعو کیا تو یہ نظم اسے تحفتاً پیش کریں گے۔
مطلب یہ کہ ابن صفی نے ابن انشاء بن کر جو سفر نامے لکھے ہیں وہ کچھ زیادہ مشکل کام تو نہیں اب کس نے یہ تصدیق کرنا ہے کہ وہ یونیسکو کے رکن تھے یا نہیں اور سفر نامے یونسیکو کے اجلاسات میں شرکت کرنے کے بعد لکھے ہیں یا یہ سب کچھ تخیئل کا نتیجہ ہے، ویسے کمال انھوں نے شاعری میں کر دکھایا ہے کہ ان کی ابن انشاء والی شاعری اس پرانی اسرار ناروی والی شاعری سے قطعی مختلف ہے لیکن پھر بھی اس میں ان کی وہ جاسوسی اور سراغرسی کی جھلک کہیں آ جاتی ہے جیسے
کوچے کو ترے چھوڑ کر مفرور ہو جائیں گے مگر
پولیس تری چوکی تری، بستی تری ’’تھانہ‘‘ ترا
اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹی محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ’’مانگے‘‘ لیا قرضہ تیرا
سعد اللہ جان برق
0 Comments