چراغِ زندگی ہو گا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں ہم نہیں ہوں گے
جیئیں گے جو وہ دیکھیں گے بہاریں زُلفِ جاناں کی
سنوارے جائیں گے گیسوِ ئے دوراں ہم نہیں ہوں گے
اگر ماضی منوّر تھا کبھی تو ہم نہ تھےحاضر
جو مُستقبل کبھی ہو گا درخشاں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے دَور میں ڈالیں خِرد نے اُلجھنیں لاکھوں
جنوں کی مُشکلیں جب ہوں گی آساں ہم نہیں ہوں گے
نہ تھا اپنی ہی قسمت میں طلوعِ مہر کا جلوہ
سحر ہو جائے گی شامِ غریباں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے ڈوبنے کے بعد اُبھریں گے نئے تارے
جبینِ دہر پہ چٹکے گی افشاں ہم نہیں ہوں گے
ہمارے بعد ہی خونِ شہیداں رنگ لائے گا
یہی سُرخی بنے گی زیبِ عُنواں ہم نہیں ہوں گے
جوانو اَب تمہارے ہاتھ میں تقدیرِ عالم ہے
تُمہیں ہو گے فروغِ بزمِ امکاں ہم نہیں ہوں گے
کلام: مولانا عبدالمجید سالک
0 Comments