اگرچہ رخصت ہوئے زمانہ ہوا لیکن یہ سانحہ آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ابھی رونما ہوا ہو۔ گیارہ جنوری 1978 کی انتہائی سرد شام تھی، بدھ کا دن تھا اور بقول ایجوکیشن اتاشی پروفیسر نذیر احمد ٹیکنسن مارلے اسپتال کی گھڑیوں میں6 بج کر دس منٹ کا وقت تھا جب ابن انشا نے اپنی زندگی کے آخری ایک دو سانس لئے اور لگ بھگ اکیاون برس کی عمر پاکر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ اپنے ہی اشعار کی بے بس تصویر مجسم کی طرح،
اب کوئی آئے تو تُو کہنا کہ مسافر تو گیا
یہ بھی کہنا کہ بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو
راہ تکتے ہوئے پتھرا سی گئی تھیں آنکھیں
آہ بھرتے ہوئے چھلنی ہوا سینہ لوگو
ہونٹ جلتے تھے جو لیتا تھا کبھی آپ کا نام
اسی طرح اور کسی کو نہ ستانا لوگو!
حوالہ : ابن انشا۔ احوال و آثار
عجب سانحہ تھا جب ابن انشا کی میت طیارے سے کراچی لائی جا رہی تھی جب اس وقت کی کیفیت ایک رپورٹر نے اس طرح قلم بند کی۔
’’ممتاز ادیب اور شاعر ابن انشا مرحوم کی میت لندن سے کراچی لانے والے پی آئی اے کے طیارے کے مسافروں نے بتایا کہ دوران سفر طیارے کے پبلک ایڈریس سسٹم پر مرحوم کی مشہور غزل ’’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا۔‘‘ کئی بار سنوائی گئی جو نہایت اثر انگیز انداز سے استاد امانت علی مرحوم نے ریکارڈ کروائی تھی غزل سن کر اکثر مسافروں پر رقت طاری ہوگئی جبکہ بعض مسافروں پر روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔
اسی موقع پر مجھے ابن انشا کا کہا ہوا شعر یاد آرہا ہے۔ سوگوار فضا ماتم گسار لوگ، لگتا ہے ابن انشا نے آج کے دن کے لیے ہی کہا تھا؛
چاند بھی سورج کتاں صد چاک
چاندنی بھی فسو وہ غمناک
جی میں آتی ہے لوٹیے سر خاک
ہنستے گنگناتے خاموش طبع انشا ہم سے رخصت ہوگئے۔ اب ہمارے پاس صرف ان کی باتیں اور تحریریں ہی محفوظ ہیں۔ قتیل شفائی لکھتے ہیں؛
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی
یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشا جی
جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے پیار کریں
کیا ان سے بھی منہ پھیرو گے،یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشا جی
انشا جی چلے گئے اس دیس جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ انہوں نے سچ ہی کہا تھا؛
تم لوگوں نے چاند بجھا ڈالا، شب ماہ کا لطف گنوا ڈالا
اب لاکھ چراغ جلاتے پھرو، ہر راستے پر ہر روزن میں
ابن انشا کی شخصیت و شاعری سے دلچسپی رکھنے والے آج بھی ان کی یہ مشہور غزل گنگناتے نظر آتے ہیں؛
کل چودھویں کا چاند تھا شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ ترا
انشا جی! سچ کہو کیا اسی بستی کے اک کوچے میں آپ نے یہ اشعار 11 جنوری کے لیے ہی شامل کیے تھے؛
دل درد کی شدت سے خوں گشتہ و سی پارہ
اس شہر میں پھرتا تھا اک وحشی و آوارہ
شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگی ہے کہ بنجارہ
دروازہ کھلا رکھنا۔
انشا جی! دروازہ تو اب کب سے کھلا ہے بس اب لوٹ آؤ۔
پروفیسر سیما سراج
0 Comments