میری پیدائش 1941ء میں ہوئی ۔راجستھان میں ایک ریاست ٹونک ہے ،وہاں پرہمارا خاندان مقیم تھا۔ابتدائی تعلیم تووہیںپرہوئی اس کے بعد1952ء میںہم حیدرآبادآکررہائش پذیر ہوئے اوراس کے بعدباقی تعلیم حیدرآبادمیں ہوئی سندھ یونی ورسٹی سے تاریخ میں ایم۔ اے کیا اور1963ء میں وہیں لیکچرار ہوگیا۔وہاں میں پڑھاتا رہا، اس کے بعد 1970ء میں جرمنی چلا گیا۔1976ء میں وہاں سے پی ایچ ڈی کی اور وہیں پڑھانا شروع کیا، سیاسی حالات چونکہ بہت خراب تھے اس لیے میں نے محسوس کیا کہ یونی ورسٹی کے اندر رہنا زیادہ مفید نہیں ہے اورا س دوران چھوڑکرلاہورچلا آیا۔
میرا تھیس تھا ’’مغل دربار‘‘ جب کہ عہدوسطیٰ کاہندوستان میرا موضوع تھا اس میںتخصص مغل دربار کے بارے میں تھا۔ میری 60 کے قریب کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مختلف موضوعات پر اکثر کتابیں تو تاریخ پر ہی ہیں اور چونکہ تاریخ کاموضوع بہت پھیل گیا ہے اس لیے سیاسی معاشرتی اور معاشی تاریخ علیحدہ سے مرتب کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ میں نے چھ کتابیں بچوں کے لیے لکھیں، 3کتابیں تہذیب کی کہانی کے موضوع پر ہیں اورتین کتابیں قدیم ہندوستان کی بابت ہیں۔ بعض اوقات انسان کوایساماحول مل جاتاہے کہ انسان پڑھنے کی طرف راغب ہوجاتا ہے ۔
مطالعہ کاشوق سکول کے زمانہ میں ہی تھا ۔اس عمر میں آغاز تو افسانہ ناول اور کہانی سے ہی ہوتا ہے۔ ابتدا بچوں کے رسائل سے ہوئی۔ بچوں کے معیاری رسائل اُس زمانہ میں شائع ہوتے تھے۔ شروع ہی سے میری زیادہ دل چسپی ادب کے ساتھ تھی اورمیراخیال تھا کہ ادب میں ایم اے کروں گا لیکن پھر تاریخ کے ساتھ دل چسپی بڑھ گئی، مثلاً تعلیم وتربیت، پھول،اورکھلونا اورایک بھائی جان کے نام سے بھی رسالہ نکلا کرتاتھا، اس قسم کے رسالے پڑھا کرتے تھے۔ ناول کے دورمیں جب پہنچے تو اس وقت محلوں میں لائبریریاں ہوتی تھیں اُس دور میں کرایہ پرناول لے کرپڑھ سکتے تھے صادق حسن صدیقی ایک ناول نگار تھے بہت ناول لکھتے تھے‘ عبدالحلیم شررکاساانداز تھا انھوں نے سو کے قریب ناول لکھ ڈالے ہوں گے بالخصوص جاسوسی ناولوں کا بہت اچھا ترجمہ کیاکرتے تھے اس طرح سے ادب کے ساتھ دل چسپی ہوگئی۔
بہت اچھے ہوتے تھے ان کو بھی بہت پڑھااسی دور میں اس دوران فرنچ لٹریچر سے متعارف ہوا اسے پڑھناشروع کیا کالج میں جاکر ذرا اورطرح کا مطالعہ شروع کیا، اس دورمیں بہت زیادہ متاثر کن توروسی ناول نگار دوستو فسکی، ٹالسٹائی چیخوف اور میکسم گورکی وغیرہ تھے۔ فرنچ ناول نگاروں میں کوکورن ہے املا زونا ہے، ٹیوماالیگزینڈر ڈوما، وکٹرہیوگو، بالزک، ایمی لازولاہے۔ برطانوی ناول نگاروں میں ہارڈی کے ناول بہت اچھے تھے، بہت اثرڈالنے والے تھے، کلاسیکل اور روسی ادب کوبہت پڑھا، اس سے یہ ہواکہ ذہن وسیع ہوا مطالعہ سے حالات کو سمجھنے میں دل چسپی اورآسانی پیداہوئی‘ تاریخ کوبھی سمجھنے میں مدد ملی،مثلاً ڈکنزکے ناول اگر آپ چارلس ڈکنز کے ناول پڑھیں تو انیسویں صدی کے وسط کا جو عہد ہے اس کی سماجی تاریخ اس اندازمیں بیاں ہوئی ہے کہ انسان کے ذہنی افق اور شعوری تناظر کو وسیع کرنے میں ممدود و معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح سے کچھ سنجیدہ مطالعہ کی طرف بھی رجحان ہوا پھرجب تاریخ کی طرف آئے توپہلے توامتحان پاس کرنے کے لیے پڑھا لیکن تاریخ کامضمون اس قدروسعت اختیار کرگیاہے اوراتنی چیزیں آگئی ہیں کہ اب ان کا احاطہ ممکن نہیں رہا ہے۔جدید لٹریچر میں بھی کوئی بہت اچھا ناول ہوتومیں پڑھ لیتاہوں۔
اردو میں مجھے پریم چند بہت پسند ہے، پریم چندکا افسانہ بہت عمدہ ہے اس میں بہت گہرائی ہے، کفن،بہت کلاسیک اوراثرڈالنے والا افسانہ ہے، دوسرے یہ کہ افسانہ ناول جیسے اثرات رکھتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ تاثرات بدلتے رہتے ہیں ایک وقت کسی تحریر یامصنف سے آدمی متاثرہوتا ہے دوسرے وقت میں کسی اور سے متاثرہوتا ہے لیکن یہ کہ اثرات بہت زیادہ عرصہ رہیںاس میں پریم چند کے اثرات ابھی تک میرے ذہن پرہیں، ناولوں میں آگ کادریا شروع میں پڑھاتھا بہت اچھا لگاتھا، قرۃ العین حیدر کی عمدہ تحریر کا نمونہ ہے گردش رنگ چمن بھی اچھا ہے لیکن ابھی میں نے ایک ناول بہت عرصہ بعد پڑھا ہے میراخیال ہے اردو میں بہت عرصہ بعد اگر کسی نے اتنا اچھا ناو ل لکھاہے تو وہ ہے شمس الرحمان فاروقی کا کئی چاند تھے سر آسمان ہے، یہ بہت خوب صورت اوراچھا ناول ہے عصمت چغتائی کوبھی میں نے پڑھا تھا اور بہتر پایا ہے۔ شاعری میں ایک زمانہ میں بہت دل چسپی تھی پڑھنے کی حد تک بہت زیادہ دل چسپی تھی غالبؔ تو ہرایک کوہی پسند ہے اس میں کوئی شک نہیں اور میرؔ کے کلام میں تو ایسی بات ملتی ہے کہ ذہن پرایک عرصہ تک اس کاتاثرقائم رہتاہے اور غالبؔ تو لوگوں کی طرح میرا پسندیدہ شاعر ہے۔
لیکن میں جدید شاعری کچھ زیادہ نہیں پڑھتا کیوں کہ میراخیال ہے کہ شاعری کاتعلق جذبات سے ہوتا ہے تواس لیے کہاجاتا ہے کہ معاشرے جب ترقی کی طرف جاتے ہیں تو شاعری سے آگے بڑھ کرنثر کی طرف جاتے ہیں کیوں کہ نثرکے اندرنظم وضبط کے ساتھ بات کو بیان کرناہوتاہے۔ نثر کسی تہذیب کے بالغ ہونے کی علامت ہے مذہب اورتہذیب میںشاعری اولین طورپر ہوتی ہے کیوں کہ اس کا زبانی روایات پر دارومدار ہوتاہے جہاں پڑھنے لکھنے کا رواج کم ہوتاہے وہاں شاعری کے ذریعے لوگ نیاپیغام دیتے ہیں اورشاعری لفظوں کے خوب صورت موسقیت اور اپنی صوتی دل کشی کے ذریعے ہرخاص وعام کویادہوجاتی ہے اس طرح اس کی اہمیت زیادہ ہو جاتی ہے اور میرے خیال میں علم انسان اور تہذیب ان سب کے لیے آپ شاعری میں اظہار نہیں کرسکتے اس کے لیے آپ کو نثر کا سہارا لینا پڑتا ہے اور یہی تہذیب کی ترقی کی علامت ہے۔
مجھے کسی نے کہا کہ تاریخ میں پوزیشن لینا کافی دشوار ہوتاہے تو یہ ایک طرح سے ایک چیلنج تھا اور پھر بہت اچھے اساتذہ مل گئے ان کابھی اثرہوتا ہے لیکن اب میں دیکھتا ہوں توہمارے اس وقت ہماری جامعات میں تاریخ ابھی تک روایتی انداز میں پڑھائی جاتی ہے اُس وقت کے جواساتذہ تھے بہت اچھے تھے وہ لوگ بنیادی ماخذ سے بھی واقف تھے لیکن ان کا تاریخ کے پڑھانے کاانداز بالکل روایتی تھا اوراب بھی وہی ہے حالانکہ تاریخ بالکل بدل گئی ہے بہرحال اُس سے ایک شوق بڑھا اور پڑھانا شروع کیا توظاہر ہے اس طرح لگائو بڑھتا رہتا ہے۔ شروع میں انگلینڈ گیا تھا پھر جرمنی گیا، جرمنی کانظام تعلیم بالکل مختلف ہے، انگلینڈ کے مقابلے میں وہاں بہت ہی گہرائی میں جاکر پڑھایا جاتاہے ان کی تحقیق کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔
ظاہر ہے وہاں سے طرز تعلیم سے بہت فائدہ اٹھایا ہے میں نے کیوں کہ بنیادی طورپر وہ گہرائی میں جاکر پڑھاتے ہیں بہت کچھ سیکھا وہاں پھر کوشش کی کہ یہاںآکر بھی اسی طریقے سے پڑھائوں لیکن یہاں پرلوگوں کوکچھ چیزیں سمجھ نہیں آتی تھی کیونکہ روایت کوتوڑنا بڑامشکل ہوتاہے لوگ روایات سے ہٹ کرکچھ سننا گوارا نہیں کرتے ہمارے ہاں یہ ہے کہ کورسز بنے ہوئے ہیں ان کوتبدیل کرنا بھی ہمارے ہاں توبہت مشکل ہے وہاں پر ہر سمسٹر کا ایک نصاب پروفیسر خود بناتا ہے اس طرح اُس کوبڑی آزادی ہوتی ہے لیکن یہاں وہ چیزیں نہیں ہیں یہاں مجبوریاں ہوتی ہیں پڑھانے کی بھی اورپڑھنے والے کی بھی۔
0 Comments