Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

منٹو کی گم شدہ تحریریں.....




ایک کتاب اس دعوے کے ساتھ شایع ہوئی ہے کہ اس میں منٹو کا گمشدہ مال برآمد کیا گیا ہے۔ منٹو کی ایسی تحریروں کے سوا منٹو کے بارے میں بھی کچھ ایسی تحریریں ہیں جو گمشدہ کے ذیل میں آتی ہیں۔ ان میں دو نظمیں راجہ مہدی علی خاں کی ہیں۔ یہ نظمیں منٹو کے بارے میں ہیں۔ ان دو میں سے ایک نظم کا عنوان ہے ’منٹو بہ حباب اندر‘۔ ملاحظہ فرمائیے۔
دنیا ہر گز گول نہیں ہے
دھول میں بالکل پول نہیں ہے
مجنوں کی دشمن تھی لیلیٰ
نو مسلم تھا بھائی چھیلا
الو رات کو سو جاتے ہیں
طوطے گلابی ہو جاتے ہیں
افلاطون کی چھ مائیں تھیں
کچھ بھینسیں تھیں کچھ گائیں تھیں
جگنو سے سگریٹ سلگاؤ
دھوپ میں بہتے اشک سکھاؤ
توبہ کتنا نیک ہے شیطان
دبلا ہے راجہ مہدی علی خان

دوسری نظم کا عنوان ہے ’غالب منٹو کے گھر میں‘۔ یہ غالب اور منٹو کے درمیان مکالمہ ہے
غالب: ملتے ہو خُو میں شیر سے تم التہاب میں
ظالم ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں
منٹو: مسٹر اسد تم ہو‘ کہو کس طرف سے شیر
کچھ نثر ماردوں گا میں منہ پر عتاب میں
غالب: تم اسپ ختم پر ہو جی ہر وقت کیوں سوار
دو ہاتھ باگ پر ہیں‘ دو پاہیں رکاب میں
منٹو: پینی ہے گر شراب تو اے جان شاعری
گستاخیاں کرو نہ ہماری جناب میں
غالب: چھوڑا نہ خوف نے کہ ترے گھر کا نام لوں
جمنا کی موج ڈرتی ہے آ کر جناب میں
منٹو: دو چار گالیاں میں سنا دوں تمہیں مگر
میں جانتا ہوں تم جو کہو گے جواب میں
غالب: بتلاؤ تم ہو کب سے جہان خراب میں
شبہائے جیل کو بھی رکھو گر حساب میں
منٹو: چھوڑو یہ میرا قصہ بہت ہی طویل ہے
بیکار یوں پھنساؤ نہیں پیچ و تاب میں
منٹو: اچھا بتاؤ پیتے ہو یا تم نے چھوڑ دی
پیتے ہو گر تو جھٹ سے منگا لوں حساب میں
غالب: منٹو چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شب ماہتاب میں
منٹو: لو آ گئی شراب بڑی عمر اس کی ہے
لایا ہے یہ بچارا چھپا کر جناب میں
غالب: اب بولو یار کیا کریں دونوں نشے میں ہیں
دنیا کے ہر گنہ کو ڈبو دو شراب میں
منٹو: آؤ نشے میں روئیں‘ وہ نالے کریں اسد
جن نالوں سے شگاف پڑے آفتاب میں

ویسے تو اس مجموعہ میں چند اور نظمیں بھی ہیں جو منٹو کو خراج عقیدت پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ سید فیضی اور خاطر غزنوی کی نظموں سے بڑھ کر مجید امجد کی نظم ہے۔ مگر دلچسپ نظمیں راجہ مہدی علی خاں کی ہیں۔ راجہ موصوف بڑے منجھے ہوئے مزاح نگار تھے۔ جتنا لکھا بہت اچھا لکھا ع
جو بات کی خدا قسم لاجواب کی
مگر ہمیں پہلے تو یہ بتانا چاہیے تھا کہ اس مجموعہ کی وجہ نزول کیا ہے۔ کس نے اسے مرتب کیا۔ کس نے منٹو کی گمشدہ تحریریں کونوں کھدڑوں سے کرید کر برآمد کیں۔ تو سنئے کہ اصل کام جس نے انجام دیا تھا وہ تھے شہزاد منظر۔ وہ زمانہ ہوا انتقال کر گئے۔ انھوں نے ہمایوں‘ عالمگیر اور ایسے دوسرے رسالوں سے جن کے شمارے اب کم و بیش گم ہیں۔ منٹو کی نگارشات کا کھوج لگایا اور انھیں مرتب کیا مگر وہ یہ کام انجام دینے کے بعد انتقال کر گئے۔

مجموعہ کی اشاعت کھٹائی میں پڑ گئی۔ 2009ء میں پروفیسر محمد سعید نے اس مجموعہ کو شایع کیا۔ یہ تفصیل بتانے کے بعد اس کے دوسرے مرتب ڈاکٹر اسد فیض لکھتے ہیں کہ ’’اس مسودے کی اشاعت کی تگ و دو میں مجھے بھی منٹو کے افسانوں اور تلاش سے دلچسپی پیدا ہوئی… اس مسودے کی تکمیل کے لیے میں نے اس دوران منٹو کی گمشدہ تحریروں کی تلاش کا عمل جاری رکھا‘‘۔ مختصر یہ کہ انھوں نے بھی اپنی دریافتیں شامل کر کے اب یہ کتابیں شایع کی ہے جسے چھاپا ہے ظفر اکیڈمی (اردو بازار‘ کراچی) نے۔ یہ اسی سال میں شایع ہوئی ہے۔

اس مجموعہ میں منٹو کی بعض تحریریں تو ایسی ہیں کہ جو گم ہو گئیں تو ادب کا اور خود منٹو کا ایسا کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اب شایع ہو گئی ہے تو منٹو کی قیمتی تحریروں میں کسی طور شامل نہیں کی جا سکتیں۔
مگر بعض مضامین‘ فیچر اور ایسے اور ٹکڑے بہت دلچسپ ہیں اور اچھا ہوا کہ وہ اب ہماری دسترس میں ہیں۔ اس میں ایک دلچسپ مضمون ہے ’غالب کی وضعداری‘۔ غالب سے منٹو کو کتنی دلچسپی تھی یہ تو ہمیں معلوم ہی ہے۔ یہاں منٹو نے غالب کی وضعداری کے واقعات سے کیسے ڈرامائی رنگ کا ایک فیچر مرتب کیا ہے۔

ویسے ہمیں اس مجموعہ میں جو حصہ زیادہ قیمتی نظر آیا جہاں منٹو نے بعض کہانیوں اور ایسی دوسری تحریروں کے ترجمے کیے ہیں۔ مثلاً مجموعہ کی پہلی ہی تحریر بہت اہم ہے۔ یہ چیخوف کے خطوط ہیں گورکی کے نام۔ یہاں صورت یہ ہے کہ گورکی کی حیثیت ایک جونیئر لکھنے والے کی ہے۔ چیخوف ایک سینئر کی حیثیت سے اس کی کہانیوں کے سلسلہ میں اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا نظر آتا ہے۔ خوب داد دیتا ہے مگر پھر سلیقے سے اس کی تحریر کی کمزوریوں کی طرف بھی اشارہ کرتا نظر آتا ہے۔ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے والا معاملہ ہے۔ ذرا ایک بیان ملاحظہ فرمائیے ’’میری رائے میں آپ بقدر کفایت ضبط کام میں نہیں لاتے۔ آپ تھیٹر میں ایک ایسے تماشائی کے مترادف ہیں جو اپنے وجد کا اس بے پروا انداز میں اظہار کرتا ہے کہ نہ تو وہ خود سن سکتا ہے اور نہ دوسروں کو سننے دیتا ہے۔ ضبط کا یہی فقدان نیچر کو بیان کرنے کی تفصیلات میں عام ہے۔ یہ آپ کے مکالموں میں مخل ہوتا ہے‘‘۔

دوسرا بیان ملاحظہ فرمائیے ’’آپ کی عمر کیا ہے۔ میں آپ کو نہیں جانتا ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں اور کون ہیں۔ بہر حال میں آپ سے یہ ضرور کہوں گا کہ آپ جو ابھی جوان ہیں۔ دوسرے کاموں کو چھوڑ کر ایک برس کے لیے ادب کا بنظر غائر مطالعہ کرنا اور اکثر وقت انشا پردازوں کی صحبت میں رہنا سزا وار ہے‘‘۔

باقی کچھ کہانیوں کے ترجمے ہیں۔ ان میں ایک کہانی چیخوف کی ہے جس کا عنوان ترجمہ میں ’’ساحرہ‘‘ ہے

انتظار حسین
  

Post a Comment

0 Comments