سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں
بہ ہر عالم خُدا کا شُکر کیجے، اُن کا کہنا ہے
خطا کرتے ہیں، ہم جو شکوۂ تقدیر کرتے ہیں
ہماری شاعری میں دِل دھڑ کتا ہے زمانے کا
وہ نالاں ہیں، ہماری لوگ کیوں توقیر کرتے ہیں
اُنہیں خوشنودئ شاہاں کا دائم پاس رہتا ہے !
ہم اپنے شعروں سے لوگوں کے دِل تسخیر کرتے ہیں
ہمارے ذہن پر چھائے نہیں ہیں حِرص کے سایے
جو ہم محسُوس کرتے ہیں، وہی تحریر کرتے ہیں
بنے پھرتے ہیں کچھ ایسے بھی شاعر اِس زمانے میں
ثنا غالب کی کرتے ہیں، نہ ذکرِ مِیر کرتے ہیں
حَسِیں آنکھوں، مدُھر گیتوں کے سُندر دیس کو کھو کر !
میں حیراں ہُوں وہ ذکرِ وادئ کشمیر کرتے ہیں
ہمارے دَور کا جالب! مَداوا ہو نہیں سکتا
کہ ہر قاتل کو چارہ گر سے ہم تعبیر کرتے ہیں
حبیب جالب
0 Comments