مارچ 1921 کو پنجاب کے شہر لدھیانہ میں جاگیردار گھرانے میں پیدا ہونے والے ساحر لدھیانوی کا اصل نام عبدالحئی تھا، انہوں نے ابتدائی تعلیم لدھیانہ سے ہی حاصل کی، کالج کے زمانے سے ہی انہیں معروف پنجابی ادیب امرتا پریتم سے عشق ہوگیا تھا جو مرتے دم تک برقرار رہا، اسی عشق کی بدولت وہ کالج سے نکالے گئے جس کے بعد وہ لاہور آگئے، انہوں نے شاعری تو کالج کے زمانے سے ہی شروع کردی تھی تاہم معاشرتی ناانصافیوں اور ناہمواریوں نے ان کے سیاسی اور سماجی شعور کو بتدریج پختگی بخشی اور پھر ان کا قلم عوامی جدوجہد کے لئے وقف ہوگیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کا شعری مجموعہ ’’ تلخیاں‘‘ شائع ہو چکا تھا۔ جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔ اس شعری مجموعے کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ اشتراکی ذہن رکھنے والے ساحر لدھیانوی کے حکم جاری ہونے پر 1949 میں لاہور سے واپس بھارت جانا پڑا جہاں انہوں نے ممبئی میں مستقل سکونت اختیار کی۔
ساحر کی ادبی اور فلمی شاعری الگ الگ نہیں، انہوں نے جو مشکلات سہی تھیں انہوں نے اسے ہی اپنی شاعری کا موضوع بنایا، یہی وجہ ہے کہ ساحر لدھیانوی کو اپنے وقت کے ناقدینِ ادب نے مستند شعرا کی فہرست سے خارج کردیا لیکن برصغیر کی 3 نسلوں میں ان کے لکھے فلمی گیت آج بھی سب سے زیادہ مقبول ہیں، ان کی شاعری نے فلمی دنیا کے شائقین کو نئے ذائقے سے آشنا کیا۔ ساحر لدھیانوی اپنی شاعری میں محنت کا استحصال برداشت کرتے ہیں نہ ہی عورت کی بے بسی، ان کی شاعری میں کہیں خوف اور خواب کا تصادم ہے تو کہیں جنگ اور امن کے درمیان محاذآرائی، کہیں انہوں نے زرعی اور صنعتی رویوں کی کشمکش اپنی شاعری میں ڈھالا ہے، ان کی شاعری حیات آشنا بھی ہے اورموجودہ حالات سے ہم آہنگ بھی۔
ان کی شاعری میں زندگی کی کیفیات، بدلتے حالات اور اس کی ترجیحات کے واضح اشارے ملتے ہیں، انہوں نے انسانی احساس کے دائرے کو وسیع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’پل دو پل کا شاعر‘‘ ’’ ہر ایک پل کا شاعر‘‘ بن گیا۔
ساحر لدھیانوی زندگی بھر امرتا پریتم کے عشق میں مبتلا رہے اور کبھی شادی نہیں کی،’’ٹھنڈی ہوائیں، لہرا کے آئیں، رت ہے جواں، تم ہو کہاں ‘‘،’’عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا ‘‘،’’میں پل دو پل کا شعر ہوں‘‘ ”کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے“، ”تیراملنا خوشی کی بات سہی“، ”تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں“ ’’چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘‘، ’’ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی‘‘، ’’چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو‘‘ ،’’ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں‘‘جیسے شہرہ آفاق گیتوں کے خالق کو دنیا سے گزرے 34 برس ہوچکے ہیں لیکن ان کے نغمے آج بھی عوام میں مقبول ہیں۔
0 Comments