جب میں نے… نہیں… میرے ہم عصروں نے بھی آنکھیں کھولیں یا یوں کہیے کہ شعورکی ہلکی سی روشنی کی کرن ذہن میں پیدا ہوئی تو شیر کی طرح دھاڑتے، بادل کی طرح گرجتے، بجلی کی طرح چمکتے، طوفان کی طرح بڑھتے، شاہین کی طرح جھپٹتے جس شخص کو دیکھا، یا جس کا نام سنا وہ آغا شورش کاشمیری تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے حدودِ جوانی میں قدم رکھا نہ تھا کہ جیل کی آہنی سلاخوں نے اپنے حلقے میں لے لیا۔ جو شاعرتھا مگر اس کے ہاتھوں کو متاعِ لوح و قلم کے بجائے حلقۂ زنجیر میسر آئے۔ جس نے جوانی کی رنگین راتوں کو زنداں کی دیواروں کے پیچھے تاریک راتوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔
اس شخص کی تحریر کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ کہیں مولانا ظفر علی خاں کی نظم کا آہنگ، کہیں مولانا ابوالکلام آزاد کی عالمانہ نظر، اور کہیں عطاء اللہ شاہ بخاری کا دریائے خطابت موجیں مارتا نظر آتا ہے۔ اور یہی آغا شورش کاشمیری عشق کی وادیٔ کارزار میں قدم بھی رکھتا ہے لیکن وہاں تحریکِ آزادی کا سرفروش شورش نہیں ہوتا بلکہ اپنے سارے لبادے اتارکر حسنِ فطرت کے راگ الاپتا اور عشق کی سرمستی میں خود کو کھو دیتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی صدائے جرس بن کر اٹھے تھے۔ زمانے نے دیکھا کہ یہ زندگی میں ہی گردِ کارواں ہوگئے اور نئی نسل نے ان کو فراموش کردیا۔ میرا شعور جوں جوں پختہ ہوتا گیا، سیاسی ذوق پیدا ہوتا گیا۔ آغا شورش کو دیکھنے کا موقع تو مدت تک نہ ملا لیکن ان کی تحریروں سے بصیرت ہمیشہ حاصل کرتا رہا۔ سچ پوچھیے تو ان کی تحریروں نے میرے اندر کے صحافی کو بیدار کرنے اور لکھنے پر اکسایا۔
فروری 1971ء کے آخر میں آغا شورش کراچی آئے تو میں اپنے ایک دوست و رفیقِ قلم سید مظفرالحق کے ہمراہ ملاقات کے لیے گیا۔ اُس وقت وہاں کچھ صحافی اور دوسرے احباب بھی فروکش تھے۔ مظفر الحق نے جب میرا تعارف کروایا تو آغا صاحب نے حیرت سے پوچھا: ’’یہی جلیس سلاسل ہے! میرا خیال تھا کہ کوئی ادھیڑ عمر والا ہوگا، اس لیے کہ اس کی تحریر میں پختگی حد سے زیادہ ہے‘‘۔ پھر کہنے لگے: ’’یہ لکھتا ہے اور بہت اچھا لکھتا ہے‘‘۔ بس مت پوچھیے یہی تعریفی جملہ تھا جس نے مجھ کو صحافت کی پُرخار وادی میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد میں آغا صاحب کی تحریر کا رنگ اپنی تحریروں میں لانے کی ناکام کوشش کرنے لگا، متاثر تو اول روز سے ہی تھا۔ پہلی ملاقات اس طرح ہوئی۔ پھر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ جب کراچی آتے، مجھ کو خط، تار یا ٹیلی فون کے ذریعے ضرور مطلع کرتے، اور میں اُس وقت تک ان کے ساتھ رہتا جب تک وہ واپس ایئرپورٹ نہیں پہنچ جاتے۔ کراچی میں ان کے ساتھ میں ہل پارک گیا، کلفٹن کی سیر کی اور کئی سیاسی، غیرسیاسی رہنمائوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کی دعوتوں میں بھی شرکت کے لیے گیا۔ پاکستان کے مختلف رہنمائوں سے میرا تعارف آغا صاحب نے بالمشافہ کرایا اور بعض شخصیتوں سے جن میں ملک کے بہت ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری افسران شامل ہیں، ذاتی خطوط کے ذریعے بھی متعارف کروایا۔ لاہور میں علامہ اقبالؒ کے مزار اور مینار پاکستان کی زیارت کے لیے بھی مجھ کو ساتھ لے گئے۔ انارکلی میں شام کو تفریح کی غرض سے تانگہ میں بیٹھ کر اپنے ’چٹان‘ کے منیجر مختار حسن کو ہمراہ لے کر جاتے۔
جب میں لاہور میں ہوتا تو مجھ کو ضرور لے جاتے۔ پھر مجھ کو صحافتی انداز بھی سکھاتے۔ باقاعدہ صحافتی تربیت انہوں نے ہی دی۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار چٹان کی کراچی کی نمائندگی میرے ذمے ہی رہی ہے۔ میری فی الجملہ شہرت، عزت، تعلقات اگر ہیں اور جس حد تک بھی ہیں آغا صاحب کے ہی مرہونِ منت ہیں۔ آخری بار کراچی مفتی شفیع صاحب کے صاحبزادے ذکی کیفی کی موت پر تعزیت کے لیے آئے تھے۔ ان کے ہمراہ مفتی صاحب کے دولت کدہ پر کورنگی (دارالعلوم) بھی جانا ہوا۔ آخری بار کراچی میں آمد سے قبل میں نے آغا صاحب کو لکھا کہ میں آپ کی شخصیت پر آپ کے متعلقین سے مواد اکٹھا کرکے کتابی شکل دینا چاہتا ہوں جس میں آپ کے خطوط بھی ہوں گے۔ جواباً تحریر کیا ’’کراچی آرہا ہوں، تفصیلی گفتگو ہوگی‘‘۔ کراچی میں ملاقات ہوئی تو کہنے لگے ’’زندگی میں تم مجھ پر کچھ لکھو گے یا جو کچھ بھی کرو گے لوگ سمجھیں گے میں کروا رہا ہوں، میری زندگی کے بعد ضرور کرنا‘‘۔ میں نے ضد کی لیکن صاف انکار کردیا اور سخت لہجے میں تنبیہہ کی ’’ایسا کرو گے تو حماقت کرو گے‘‘۔ مجھ کو افسوس ہوا اور میں ناراض ہوگیا۔ لاہور جانے کے بعد کئی خطوط لکھے، ٹیلی فون بھی کیے لیکن میں نے جواب نہیں دیا۔ اس لیے کہ میری بہت بڑی خواہش پوری نہ ہوسکی تھی، بلکہ تمنا تھی کہ اپنے استاد کی زندگی پر بھی قلم اٹھائوں (میرا خط بھی دفتر چٹان کے ریکارڈ میں ہوگا)۔ آخر میں ان کا ایک خط آیا۔ اس میں خوبصورت طنز تھا اور اخلاص کی جھلک بھی۔
’’عزیزم اقبال مند سلاسل!
سلام مسنون
یہ ناز یہ غرور لڑکپن میں تو نہ تھا
کیا تم جواں ہو کے‘ بڑے آدمی ہوئے
اور بقول غالب
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
والسلام
المخلص
دستخط شورش کاشمیری‘‘
میں اس مختصر سے خط کو پڑھتے ہی عازم لاہور ہوا اور سوچا انٹرویو کروں۔ اتنا بڑا آدمی ہے، جس نے مجھ کو دوست سمجھا‘ بھائی سمجھا‘ شاگرد سمجھا‘ بیٹا سمجھا… میں نے ان سے بے حد سیاسی معلومات حاصل کی ہیں اور انتہائی قربت ملی ہے۔ لیکن اتنی رفاقت اور اچھے تعلقات کے باوجود جب میں نے ان کے انٹرویو کے بارے میں سوچا تو گھبرا گیا۔ اس لیے کہ میرے ذہن کے گوشہ میں اس خط کے نقوش پوری طرح موجود تھے جس میں لکھا تھا: ’’آپ کے مضمون میرے سامنے ہیں۔ آپ جتنی خوبصورت باتیں کرتے ہیں قلم سے اتنا انصاف نہیں کرتے۔‘‘ گو کہ آگے میری حوصلہ افزائی بھی تھی ’’آپ میں ایک اچھا ادیب بننے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں، خدا نے چاہا تو مستقبل قریب میں آپ قلم پر قابو پالیں گے۔ میں عموماً بیمار رہتا ہوں اس لیے آپ کو بروقت جواب نہیں لکھتا، محسوس نہ کرنا، میرے دل میں آپ کے لیے بڑی جگہ ہے اور میں آپ کو چھوٹے بھائی کی طرح عزیز سمجھتا ہوں۔ والسلام۔ دعاگو آغا شورش کاشمیری‘‘ (17 ستمبر 1971ئ)
لیکن میں نے ہمت کر ہی ڈالی اور غالباً اگست ہی میں لاہور گیا۔ دفتر چٹان پہنچا تو آغا صاحب اداریہ لکھنے میں مصروف تھے۔ میں نے سلام کیا تو چشمہ آنکھوں سے ہٹاکر غور سے دیکھا، پھر یہ کہتے ہوئے کھڑے ہوئے اور سینے سے لگالیا ’’کب لاہور آئے‘‘۔ بتایا ’’کل آگیا تھا لیکن آپ کی خدمت میں آج حاضر ہوا ہوں۔ تھکاوٹ کی وجہ سے نہ آسکا لیکن آج بہت ہی ضروری کام سے آیا ہوں۔ ایک زحمت دینی ہے‘‘۔ ’’کہو کیا کام ہے، تم سے کبھی انکار کیا ہے!‘‘ میں نے کہا ’’انٹرویو چاہتا ہوں‘‘۔ ’’میرا انٹرویو کرنے سے کیا فائدہ؟ ایک تو کوئی چھاپے گا نہیں… اور اگر کسی نے چھاپ دیا تو قوم کو لذت نہیں آئے گی۔ اس ملک میں کوئی بولنے کی جرأت رکھتا ہے؟ اور اگر بولنے کا کوئی حوصلہ کرے تو سننے اور پڑھنے کا کسی میں حوصلہ نظر نہیں آتا۔ اچھا یہ بتائو تم نے کیا کچھ کھایا پیا؟‘‘ میں نے میں نے کہا ’’کھا تو لوں گا لیکن آپ انٹرویو ضرور دیں گے‘‘۔ انہوں نے پھر ٹالنے کی کوشش کی اور چائے، سیون اپ اور کھانے سب ایک ساتھ ہی منگوانے کا آرڈر دے دیا۔ مہمان نوازی میں کبھی کمی نہ کرتے۔ پھر کہنے لگے ’’تھوڑی دیر انتظار کرو پھر گپیں لڑائیں گے، ذرا اداریہ مکمل کرلوں‘‘۔ پلٹ کر اداریہ لکھنے لگے۔ اداریہ ختم ہوا تو ملک عبدالسلام آگئے۔ میں نے ان سے سفارش کروائی اور ساتھ ہی بچوں کی طرح ضد کی۔ ایک دم کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ’’اگر اسی غرض سے آئے ہو تو چلو پوچھو کیا پوچھتے ہو، مایوس نہیں کروں گا‘‘۔
(یہ انٹرویو ہفتہ وار ’’اخبار جہاں‘‘ کے شمارہ اکتوبر 1975ء میں شائع ہوچکا ہے)
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آغا شورش کاشمیری کی ادارت میں نکلنے والے ہفتہ وار چٹان لاہور میں سب سے پہلے میری تحریر یکم جنوری 1970ء کو شائع ہوئی، جو کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کی روداد تھی۔ یہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا، اس لیے کہ اُس وقت چٹان کے مستقل قلمی معاونین میں ڈاکٹر سید عبداللہ، نعیم صدیقی، ڈاکٹر عبدالباقر، ڈاکٹر جاوید اقبال، پروفیسر ابوبکر غزنوی، احسان دانش، رفیق احمد باجوہ، پروفیسر ابوبکر غزنوی، میرزا ادیب جیسے اہلِ قلم شامل تھے اور اس کے ایڈیٹر آغا شورش کاشمیری ملک کے نامور صحافی ہی نہیں بلکہ ایک قدآور مدیر تھے اور اُس وقت چٹان کی اشاعت 72 ہزار فی ہفتہ تھی۔ یہ ملک کا سب سے بڑا سیاسی ہفت روزہ تھا جبکہ اخبار جہاں کی اشاعت اُس وقت صرف 35 ہزار تھی۔ اس سال جب آغا شورش کاشمیری کراچی کے دورے پر آئے اور میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے فوری طور پر مجھے کراچی کا وقائع نگار سیاسی مقرر کردیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد نمائندۂ خصوصی اور جلد ہی مجلس ادارت کا رکن ہوگیا۔ اب جب سے میں کراچی میں وقائع نگار سیاسی مقرر ہوا تو اُن کے دورۂ کراچی میں میرا اُن کے ساتھ رہنا اُس وقت تک لازمی ہوجاتا جب تک کہ وہ واپس لاہور نہ چلے جاتے۔ بہرکیف میں تقریباً پانچ سال تک چٹان سے وابستہ رہا۔ اس دوران کراچی کے علاوہ جب بھی میں لاہور جاتا آغا شورش مرحوم کا مستقل ساتھ رہتا۔ میں اس مضمون میں اپنی ملاقاتوں یا موجودگی کے دوران ہونے والے واقعات کو قلم بند کروں گا۔ یہ ایک شاگرد کی چشم دید رپورٹ ہے! یہ ایک شاگرد کی نظر میں استاد کے کردار کا مطالعہ ہے، مشاہدہ ہے، تجربہ ہے، ایک صحافی کی ڈائری ہے۔ یادداشتیں مختلف واقعات کے حوالے سے قلمبند کروں گا، اور صرف اس حقیقت کو ذہن میں رکھ کر ہمیشہ کی طرح قلم اٹھائوں گا جس سے استادِ محترم آغا شورش کاشمیری نے ہی واقف کروایا ہے کہ ’’اخبار نویس کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ قلم اور رندے میں فرق ہے، جو کچھ وہ لکھ رہا ہے وہ اس کے ضمیر کی آواز ہے، خوف اس کی تحریر سے باہر ہے، اس کا مقصد تخریب نہیں تعمیر ہے، جس تحریر پر خود ایڈیٹروں کو یقین نہ ہو کہ وہ اس مؤقف یا نصب العین یا مقصد کے تحت زیر قلم آئی ہیں وہ تحریر نہیں قحبہ گری ہے، فی الجملہ ایڈیٹر کو دیانت دار، صاحبِ علم، زیرک، خوددار، معاملہ فہم اور ایثار پیشہ ہونا چاہیے۔ جو ایڈیٹر اپنے خیالات کی جزا چاہتا ہے، سزا سے بھاگتا ہے وہ ایڈیٹر نہیں گھسیارہ ہے، اس میں اور ایک طوائف میں صرف ایک قدم کا فاصلہ ہے۔‘‘
ایک دفعہ کا ذکر ہے آغا شورش کاشمیری کراچی کے دورہ پر آئے اور ہوٹل جبیس (صدر) میں ٹھیرے۔ یہ جنوری 1971ء ہی ہوگا۔ میرے دوست و ہم قلم رفیق سید مظفرالحق نے کہا کہ تمہاری تحریریں تو ہفتہ وار چٹان لاہور میں بہت چھپتی ہیں اور آج کل چٹان کے ایڈیٹر آغا شورش کاشمیری آئے ہوئے ہیں، تم ان سے کبھی نہیں ملے، فوراً چلو موقع اچھا ہے، تمہاری ملاقات ہوجائے گی۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور سید مظفرالحق کے ہمراہ ہوٹل جبیس پہنچ گیا۔ ابھی اس کمرے کے دروازے پر ہی تھے جس میں آغا شورش قیام پذیر تھے کہ کسی کتاب کا مسودہ میرے استقبال کے لیے آیا اور اس کے ساتھ ہی آغا شورش کاشمیری کی آواز بھی کہ ’’اس سے اچھا تو جلیس سلاسل لکھتا ہے اور بہت اچھا لکھتا ہے‘‘۔ یہ قائدِ صحافت آغا شورش کاشمیری سے میری ملاقات کا دیباچہ تھا۔ پھر ہم آگے بڑھے اور سید مظفرالحق نے آغا شورش سے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ جلیس سلاسل ہیں۔
آغا شورش نے مجھ سے گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے حاضرین سے کہا ’’میں تو سمجھتا تھا کہ کوئی ادھیڑ عمر کا ہوگا۔ اپنی نوجوانی کی تصویر بھیج دیتا ہے۔ لیکن یہ تو اپنی تحریر اور تصویر کی طرح خوبصورت نوجوان نکلا‘‘۔ میری یادداشت کے مطابق اس موقع پر اخبار جہاں کے فرید احمد، پروفیسر ابوسلمان شاہجہاں پوری اور کچھ اور لوگ بھی موجود تھے۔ اس مسودہ کے بارے میں فرید احمد کا ہی بیان ہے کہ وہ ایئر مارشل اصغر خان اور جمہوریت کے خلاف لکھی ہوئی پروفیسر ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری کی ایک کتاب تھی جس کا دیباچہ مولانا احتشام الحق تھانوی نے لکھا تھا اور آغا صاحب کو ان کے خیالات سے اختلاف تھا۔ اس لیے جب ان کے سامنے ابوسلمان شاہجہاں پوری نے مسودہ پیش کیا تو انہوں نے اپنے غصہ کا اس طرح اظہار کیا۔
ایک دن کی بات ہے کہ کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین نے آغا شورش کاشمیری کو مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کے لیے مدعو کیا۔ دو گھنٹے بلا موضوع خطابت کے جوہر دکھاتے رہے تو یاد آیا کہ مجھے تو کسی خاص موضوع پر خطاب کرنا تھا (میں نے دوستوں کو موضوع پہلے بتانے سے منع کردیا تھا۔ آغا شورش کاشمیری خطابت کے بادشاہ ہیں، اس سلطنت کے تاریخ جغرافیہ سے خوب واقف ہیں، آپ عین موقع پر مقصد سے آگاہ کیجیے) تو اچانک بولتے بولتے رک گئے جیسے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں سکوت آگیا ہو، کہنے لگے: ’’آپ لوگوں نے موضوع بتایا نہیں، میں نے جلیس سلاسل سے پوچھا تھا تو وہ طرح دے گیا تھا۔ آپ موضوع بتائیں تو میں اپنی تقریر شروع کروں‘‘۔ اس بات پر آرٹس آڈیٹوریم کے ہال میں زبردست قہقہہ لگا۔ خیر موضوع بتایا گیا کہ ’’نوجوان نسل اسلام سے بیزار ہے‘‘۔
شورش نے کہا ’’یہ نوجوان پر الزام اس لیے لگایا جارہا ہے کہ نوجوان اسلام سے بے زار ہوجائیں۔ خیر اس موضوع پر اپنے مؤقف کی حمایت میں دلائل کے انبار لگادیے۔ لیکن تقریر شروع ہونے سے قبل ایک طالب علم نے شوشا چھوڑا کہ آغا صاحب پہلے ایک سوال کا جواب ہمیں دیں کہ علیؓ اور عمرؓ میں کیا فرق ہے؟ آغا شورش نے کہا کہ تیر انداز کی بہادری یہ ہے کہ تیر اندھیرے سے نہیں چلاتا۔ اس لیے پہلے روشنی میں سامنے آجائیں۔ وہ طالب علم پیچھے سے سوال کررہا تھا اور اُدھر کچھ اندھیرا تھا۔ طالب علموں نے شور مچایا تو بے چارہ سامنے آگیا۔ اور پھر سوال کیا۔ (اس وقت استاد علامہ ابن حسن چارچوی صاحب شعبہ اسلامیات اہلِ تشیع کے چیئرمین تھے) آغا شورش ان سے مخاطب ہوئے: ’’تو علامہ صاحب اس سلسلے میں کچھ ہمارے علم میں اضافہ کریں۔ علامہ ابن حسن چارچوی صاحب نے آغا شورش سے کہا ’’مجھ میں آپ کی طرح جیل جانے کا حوصلہ نہیں اس لیے میں نے اب سیاست ترک کردی ہے۔ آپ ہی اس کا جواب دے دیں‘‘۔ آغا شورش پھر طلبہ سے مخاطب ہوئے کہ میں آپ کو علامہ صاحب سے ہی پوچھ کر جواب دیتا ہوں۔ اب علامہ صاحب سے پوچھتے ہیں ’’علامہ صاحب کیا عمرؓ مراد اور علیؓ مرید نہیں تھے؟‘‘ علامہ ابن حسن چارچوی صاحب نے جو سراٹھا کر آغا شورش کو دیکھ رہے تھے، سر جھکا کر تصدیق کردی۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ینگ رائٹرز گلڈ کے صدر اظہار حیدری نے ناظم آباد گول مارکیٹ کے ای ایس سی آفس کے قریب ایک لمبی مارکیٹ کی چھت پر ینگ رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام ایک جلسہ کا انتظام کیا جس سے آغا شورش کاشمیری کو خطاب کرنا تھا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ پانچ بجے خطاب کے لیے آغا شورش کو جلسہ گاہ پہنچنا تھا۔ لیکن لوگ تین بجے سہ پہر ہی جمع ہوگئے تھے۔ مارکیٹ کی چھت پر ہزاروں افراد چڑھے ہوئے تھے اور تاحد نظر گھروں کی چھتوں پر لوگ شورش کو دیکھنے اور سننے کے لیے موجود تھے۔ اور لوگ اندھیرا ہونے تک موجود رہے لیکن آغا شورش اس جلسے میں نہ آئے۔ وہ شام کو جلسہ گاہ کے لیے نکلے لیکن اچانک پروگرام تبدیل کرکے واپس لاہور روانہ ہوگئے، گو کہ میں نے جلسہ کے منتظم اور اپنے دوست اظہار حیدری کو دو بجے تک آکر بتادیا تھا کہ شورش صاحب واپس لاہور چلے گئے ہیں۔ اظہار حیدری صاحب برہم تھے کہ کل تمہارے سامنے شورش صاحب نے اس جلسہ میں آنے کا وعدہ کیا تھا۔
میں نے ان کو بتایا کہ صدر بھٹو صاحب نے آغا شورش کے وارنٹ گرفتاری جاری کرادیے اور میں ان کو ایئرپورٹ چھوڑ کر آرہا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں کراچی میں گرفتار ہونا نہیں چاہتا اور گرفتاری سے قبل مجھ کو چند دیگر ضروری معاملات نمٹانے ہیں، اس لیے میری طرف سے معذرت کرلینا۔ خیر اظہار حیدری صاحب کو کئی گھنٹے کے بعد میری بات کا یقین آیا۔ پھر انہوں نے حاضرین میں ایک زوردار تقریر جھاڑی جس سے وہ مطمئن ہوئے بلکہ حکومت کے خلاف بھی نعرے لگائے۔
ایک روز کے بعد ہی کی یہ روداد ہے کہ آغا شورش کاشمیری نے حکومت کو چیلنج کردیا کہ عدالت میں حاضر ہونے سے پہلے گرفتار نہیں کرسکتے۔ اور پھر ایسا ہوا کہ عدالتِ عالیہ لاہور کی دو دن کی چھٹیوں کے دوران وہ پورے شہر میں گھومے پھرے۔ ٹیکسی، رکشہ، تانگہ اور پرائیویٹ موٹروں کے علاوہ پولیس آفیسر کی گاڑیوں میں بھی سفر کیا اور اپنے گھر بچوں سے ملنے گئے لیکن حکومت گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ مختلف مقامات سے گورنر، وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب، ڈی آئی جی سے فون پر بات چیت بھی کرتے رہے۔ دراصل شورش کاشمیری عوام کے دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ بس وہ گاڑیاں روکتے تھے اور اپنا نام بتاتے تھے۔ خواہ کوئی بھی ہو، اُن کو اُن کے مقام پر پہنچادیتا تھا اور ٹیکسی، رکشہ اور تانگہ نے اُن سے کرایہ بھی نہیں مانگا۔ یہ مزید قابلِ غور بات ہے۔ خیر جب عدالتِ عالیہ میں حاضر ہوئے تو چاروں طرف پہرہ تھا اور آغا شورش کاشمیری عدالت میں اپنے دعوے کے مطابق موجود تھے۔ میں جب سماعت کے دوران پہنچا تو جنرل سرفراز خان (جنگ 1965ء کے ہیرو) اگلی صف میں تشریف فرما تھے۔ مجھے دیکھ کرکھڑے ہوگئے کہ آپ یہاں بیٹھیں۔ میں پریشان ہوگیا، اس لیے کہ میری اُن سے پہلے کوئی ملاقات نہ تھی۔ میں نے اپنا تعارف کروانا چاہا تاکہ غلط فہمی دور کردوں، تو کہنے لگے: میں آپ کو جانتا ہوں۔ آپ کی تحریریں ’’چٹان‘‘ میں پڑھتا ہوں۔ اتنی کم عمری میں آپ کی جرأت دیکھ کر خوشی ہوتی رہی ہے۔ میں نے آپ کی تصویریں بھی کئی بار دیکھی ہیں، اس لیے فوراً پہچان گیا۔ یہاں سے فراغت کے بعد میرے گھر آیئے گا، پھر تفصیلی گفتگو ہوگی۔ خیر بات استادِ محترم آغا شورش کی ہورہی تھی۔ ہاں تو آغا شورش نے عدالتِ عالیہ میں تقریر شروع کردی اور سرکاری وکیل (ایڈووکیٹ جنرل) سے مخاطب ہوئے کہ آپ بتایئے میں جیل کی کس کلاس کے لائق ہوں؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا: آغا شورش اے کلاس کے لائق ہیں، اس لیے ہماری بھی عدالت سے درخواست ہے کہ انہیں اے کلاس دینے کا حکم صادر فرمایا جائے۔
اس کے ساتھ ہی عدالتِ عالیہ نے آغا شورش کاشمیری سے کہا کہ یہ عدالت ہے آپ تقریر سے گریز کریں۔ پھر آغا صاحب نے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا ایک خط عدالت کو پیش کیا جو ذوالفقار علی بھٹو نے آغا شورش کے نام اُس وقت لکھا تھا جب انہیں صدر ایوب خان نے اپنی کابینہ سے نکال دیا تھا، جس کے مندرجات یہ تھے: ’’آغا صاحب (شورش کاشمیری) مجھے معلوم ہے کہ آپ کے بڑے بڑے دوست ہیں۔ آپ مجھے بھی اپنا دوست بنالیں تو یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہوگی اور مجھے آپ کی دوستی پر فخر ہوگا‘‘۔ اس انکشاف پر حاضرین ہی نہیں
عدالت بھی انگشت بدنداں تھی کہ
حادثہ تو ہے لیکن اتنا المناک نہیں
کہ ایک دوست نے ایک دوست کو برباد کیا
یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ جب خان عبدالولی خان وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے مل کر سیدھے دفتر ’’چٹان‘‘ آغا شورش کاشمیری کے پاس پہنچے اور لب کشا ہوئے: ’’شورش تم تو کہتے تھے کہ نواب زادہ نصراللہ خان شریف آدمی ہیں جبکہ انہوں نے انتہائی کمینگی کا ثبوت دیا۔ وہ وزیراعظم بھٹو سے ملاقات کے لیے گئے تو وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ ولی خان کمیونسٹ ہے، ملک دشمن ہے، اس کو بلوچستان کی حکومت مت دیں‘‘۔ آغا شورش ہنسے اور کہا ’’آپ کو نواب زادہ نصراللہ خان کی بھٹو سے ملاقات کی تفصیل ان کے ساتھ جانے والا صحافی سنائے گا۔ اور ان کی ملاقات کا اہتمام کچھ اس طرح ہوا کہ وزیراعظم نے وزیراعظم ہائوس راولپنڈی سے نواب زادہ صاحب کو فون کیا کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، آپ راولپنڈی آجایئے۔ لیکن نواب زادہ صاحب کا مسئلہ تو یہ ہے کہ رسّی جل گئی بل نہیں گئے، کہنے لگے کہ مجھے راولپنڈی میں کوئی کام نہیں ہے، ہاں دو روز بعد لاہور ضرور جانا ہے اگر آپ ملنا چاہتے ہیں تو لاہور آجایئے۔ خیر وزیراعظم جب لاہور پہنچے تو نواب زادہ صاحب کو آگاہ کیا کہ میں گورنر ہائوس میں ہوں۔ نواب زادہ صاحب جب طے شدہ پروگرام کے تحت گورنر ہائوس پہنچے تو وزیراعظم بھٹو نے خود آکر نواب زادہ صاحب کی کار کا دروازہ کھولا اور پھر اندر لے گئے اور بیٹھتے ہی نواب صاحب سے مخاطب ہوئے ’’آپ کا کیا خیال ہے، ولی خان ملک دشمن ہے،کمیونسٹ ہے، اس کو بلوچستان میں حکومت نہیں دینا چاہیے نا!‘‘ نواب زادہ نصراللہ خان نے کہا ’’ولی خان کچھ بھی ہو، اس نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے، اس کا حق ہے کہ اسے بلوچستان میں صوبائی حکومت ملے۔ اس لیے سرحد، بلوچستان میں آپ ان لوگوں کو حکومت بنانے کا حق دیں جن کی اکثریت ہے، ورنہ اس کا حال بھی مشرقی پاکستان جیسا ہوگا۔ نواب زادہ صاحب نے ان سے اتنا کہا اور چلے آئے۔ اب حقیقت آپ کو بتادی گئی ہے۔ نواب زادہ نصراللہ خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کے بارے میں آپ آسانی سے فیصلہ کرسکتے ہیں‘‘۔ اس پر ولی خان نے کہا ’’میں تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ بھٹو وزیراعظم ہونے کے باوجود اتنی بڑی غلط بیانی کرے گا، جبکہ اس کو سوچنا چاہیے تھا کہ دونوں سیاستدان اسی ملک میں رہتے ہیں اور ان کی کسی وقت ملاقات بھی ہوسکتی ہے۔‘‘
جلیس سلاسل
0 Comments