تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا
وفا کرینگے ،نباہینگے، بات مانینگے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بیدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
نہ پوچھ تاچھ تھی کسی کی وہاں نہ آو بھگت
تمہاری بزم میں کل ایہتمام کس کا تھا
انھیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور
جو لطف آپ ہی کرتے تو نام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو، وہ تذکرا نا تمام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ کہیں تو کس سے کہیں
خیال میرے دل کو صبح وشام کس کا تھا
اگرچہ دیکھنے والے تیرے ہزاروں تھے
تباہ حال بہت زیرے بام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا ‘داغ’ بےوفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا
داغ
0 Comments