غالب کا ہے اندازِ بیاں اور۔۔۔
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میر ا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ہوئی مدت کہ غالب مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
پھر تیرے کوچے کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آی
ا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر۔ تھا جو رازداں اپنا
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے ، لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
رنج سے خُوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
اے ساکنانِ کوچۂ دل دار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالب آشفتہ سر ملے
کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ھے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبعیت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
ہم ہیں مشتاق اور وہ بےزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے
خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
عشق نے غالب نکمّا کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالب!
کہ لگائے نہ لگے ، اور بُجھائے نہ بنے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبٓ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پر ستم نکلے
جو وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکل
جاتے ہوئے کہتے ہو ۔۔۔۔۔ قیامت کو ملیں گے
کیا خوب ۔۔۔۔۔ قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور ؟؟؟
0 Comments