ان کالی صدیوں کے سر جب رات کا آنچل ڈھلکے گا جب دُکھ کے بادل پگھلیں گے، جب سُکھ کا ساگر جھلکے گا جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمہ گائے گی...
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطر جُگ جُگ سے ہم سب مر مر کے جیتے ہیں جس صبح کے امرت کی دُھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں ان بھوکی پیاسی روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
دولت کے لیے جب عورت کی عصمت کو نہ بیچا جائے گا چاہت کو نہ کُچلا جائے گا، عزت کو نہ بیچا جائے گا اپنے کالے کرتوتوں پر جب یہ دنیا شرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
بیتیں گے کبھی تو دن آخر یہ بھوک کے اور بےکاری کے ٹوٹیں گے کبھی تو بُت آخر دولت کی اجارہ داری کے جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مجبور بڑھاپا جب سُونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا حق مانگنے والوں کو جس دن سُولی نہ چڑھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
فاقوں کی چتاؤں پر جس دن انسان نہ جلائے جائیں گے سینے کے دہکتے دوزخ میں ارماں نہ جلائے جائیں گے یہ نرک سے بھی گندی دنیا جب سورگ بنائی جائے گی
0 Comments