مرا ملک، ملک یتیم ہے.
مرا دیس میر سپاہ کا.
مرا شہر مال غنیم ہے.
یہاں سب کے نرخ جدا جدا
اسے مول لو، اسے تول دو
جو طلب کرے کوی خوں بہا
تو دهن خزانے کا کهول دو
جو سرکشی کا ہو مرتکب
اسے قمچیوں سے زبوں کرو
جہاں خلق شہر ہو مشتعل
اسے گولیوں سے نگوں کرو.
مگر ایسے ایسے غنی بهی تهے
اسی قحط زار دمشق میں
جنہیں کوے یار عزیز تها
جو کهڑے تهے مقتل عشق میں
سو، لہو کے جام انڈیل کر
مرے جانفروش چلے گئے
وہ سکوت تها سرے میکدہ
کہ وه خم بدوش چلے گئے
کوی مجلسوں میں رسن بہ پا
کوی مقتلوں میں دریدہ تن
نہ کسی کے ہاتھ میں شاخ نے
نہ کسی کہ لب پہ گل سخن
یہاں روز حشر بپا ہوے
پہ کوی بهی روز جزا نہیں
یہاں زندگی بهی عذاب ہے
یہاں موت میں بهی شفا نہیں
0 Comments