پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا،
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں،
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا،...
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں۔
شہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ،
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے،
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی،
روحِ قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے،
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا،
یہ تصّور تو ہر گز ہمارا نہیں۔
سرنگوں تھا قبر پہ مینارِ وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاج دارِ وطن،
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر،
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن،
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن،
اُن کی تصویر ہے یہ مینارہ نہیں۔
کچھ اسیرانِ گلشن تھے حاضر وہاں،
کچھ سیاسی محاشے بھی موجود تھے،
چاند تارے کہ پرچم میں لپٹے ہوئے،
چاند تاروں کے لاشے بھی موجود تھے،
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا،
میرا رونا بھی ان کو گوارا نہیں۔
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا،
شیر تھا میں بھی اک ارضِ بنگال کا،
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی،
ایک شاہیں تھا میں ذہنِ اقبال کا،
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل،
دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں۔
یوں تو ہونے کو گھر ہے، سلامت رہے،
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے،
ایک تھے جو کبھی آج دو ہوگئے،
ٹکڑے کر ڈالے دشمن کی تلوار نے،
دھڑ بھی دو ہوگئے در بھی دو ہوگئے،
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں۔
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں۔
16 دسمبر 1971 ۔۔۔۔۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہوگئے
ٹکڑے کر ڈالے دشمن کی تلوار نے
گھر بھی 2 ہوگئے در بھی 2 ہوگئے
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں
قبر اقبال سے یہ آرہی تھی صداء
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا،
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں،
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا،...
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں۔
شہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ،
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے،
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی،
روحِ قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے،
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا،
یہ تصّور تو ہر گز ہمارا نہیں۔
سرنگوں تھا قبر پہ مینارِ وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاج دارِ وطن،
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر،
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن،
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن،
اُن کی تصویر ہے یہ مینارہ نہیں۔
کچھ اسیرانِ گلشن تھے حاضر وہاں،
کچھ سیاسی محاشے بھی موجود تھے،
چاند تارے کہ پرچم میں لپٹے ہوئے،
چاند تاروں کے لاشے بھی موجود تھے،
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا،
میرا رونا بھی ان کو گوارا نہیں۔
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا،
شیر تھا میں بھی اک ارضِ بنگال کا،
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی،
ایک شاہیں تھا میں ذہنِ اقبال کا،
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل،
دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں۔
یوں تو ہونے کو گھر ہے، سلامت رہے،
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے،
ایک تھے جو کبھی آج دو ہوگئے،
ٹکڑے کر ڈالے دشمن کی تلوار نے،
دھڑ بھی دو ہوگئے در بھی دو ہوگئے،
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں۔
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں۔
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں،
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا،...
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں۔
شہرِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ،
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے،
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی،
روحِ قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے،
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا،
یہ تصّور تو ہر گز ہمارا نہیں۔
سرنگوں تھا قبر پہ مینارِ وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاج دارِ وطن،
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر،
کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن،
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن،
اُن کی تصویر ہے یہ مینارہ نہیں۔
کچھ اسیرانِ گلشن تھے حاضر وہاں،
کچھ سیاسی محاشے بھی موجود تھے،
چاند تارے کہ پرچم میں لپٹے ہوئے،
چاند تاروں کے لاشے بھی موجود تھے،
میرا ہنسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا،
میرا رونا بھی ان کو گوارا نہیں۔
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا،
شیر تھا میں بھی اک ارضِ بنگال کا،
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی،
ایک شاہیں تھا میں ذہنِ اقبال کا،
ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آج کل،
دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں۔
یوں تو ہونے کو گھر ہے، سلامت رہے،
کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے،
ایک تھے جو کبھی آج دو ہوگئے،
ٹکڑے کر ڈالے دشمن کی تلوار نے،
دھڑ بھی دو ہوگئے در بھی دو ہوگئے،
جیسے کوئی بھی رشتہ ہمارا نہیں۔
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں۔
0 Comments