کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب ، سفر کریں سب اُسی کی جانب... ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ، وہی خدا ہے کسی کو سوچوں نے کب سراہا ، وہی ہوا جو خدا نے چاہا جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے ، وہی خدا ہے نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی جو خانہء لاشعور میں جگمگا رہا ہے ، وہی خدا ہے کسی کو تاجِ وقار بخشے ، کسی کو ذلت کے غار بخشے جو سب کے ماتھے پہ مہرِ قدرت لگا رہا ہے ، وہی خدا ہے سفید اُس کا سیاہ اُس کا ، نفس نفس ہے گواہ اُس کا جو شعلہء جاں جلا رہا ہے ، بُجھا رہا ہے ، وہی خدا ہے مظفر وارثی
0 Comments