اتوار کا روز اس ملک کے باسیوں کے لیے بھاری رہا۔ اپنے اپنے شعبوں میں دو نامور شخصیات دارفانی سے کوچ کر گئیں ۔ یہ عاصمہ جہانگیر اور قاضی واجد تھے جنہیں طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ کون قاضی واجد کے چہرے سے شناسانہ ہو گا! نوعمر، جوان اور بزرگ تمام عمروں کے افراد ان سے کم یا زیادہ واقف ضرورہیں۔ وہ اس پرانی نسل کی حسین یادوں کا حصہ ہیں جس نے پاکستانی ڈرامے کی شہرت کا عروج دیکھا ۔ وہ وقت جب ایک چینل اور محلے کے چند گھروں میں بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن ہوا کرتا تھا اور ڈرامے کی شروعات کے ساتھ گھروں کے اندر اور باہر سناٹا چھا جایا کرتا تھا۔
وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جن کے جوانی سے بڑھاپے تک کے عرصے کو کم و بیش پورا ملک دیکھا کرتا ہے، اور جو پردۂ سکرین پر اپنے کرداروں کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے یادداشت کے کسی کونے میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ ریڈیو ، ٹیلی ویژن، فلم اور تھیٹر سے ان کا یارانہ بہت پرانا تھا۔ وہ 1960ء کی دہائی میں ٹیلی ویژن سے منسلک ہوئے اور اس کے بعد سکرین سے ان کا رشتہ تاحیات قائم رہا۔ اس سے قبل وہ ریڈیو سے منسلک ہو چکے تھے۔ ریڈیو ہی سے قاضی واجد کے کریئر کا آغازہوا جہاں ابتدا بچوں کے پروگرام سے ہوئی۔ ریڈیو پر انہوں نے متعدد کردار ادا کیے اور شہرت پائی۔
وہ الفاظ اور جملوں کو بہت خوبی سے ادا کرتے تھے۔ جن دنوں پورے ملک میں پی ٹی وی کا توتی بولتا تھا، شوکت صدیقی کے ناول ’’خدا کی بستی‘‘ سے ماخوذ ایک ڈراما سیریز شروع ہوئی۔ 1969 میں شروع ہونے والی اس مشہور سیریز میں قاضی واجد کا کردار بھی خاصا مقبول ہوا۔ وہ راجا بدمعاش بنے اور یہ کردار عوام الناس کے ذہنوں پر اپنا نقش چھوڑ گیا۔ ٹیلی ویژن پر قاضی واجد کے نبھائے گئے کرداروں میں بہت تنوع تھا اور ان کا شمارکرنا خاصا مشکل ہے۔ بعض ڈراموں میں ان کے کرداروں نے بے مثال شہرت پائی۔ انہیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان ڈراموں میں ’’دھوپ کنارے، تنہائیاں، حوا کی بیٹی، خدا کی بستی، کرن کہانی، آنگن ٹیڑھا، تعلیم بالغاں، پل دو پل اور انارکلی‘‘ قابل ذکر ہیں۔
انہوں نے خود کو مثبت اور سنجیدہ کرداروں تک محدود نہیں کیا، بلکہ منفی کردار بھی ادا کیے۔ جہان فانی سے کوچ کرنے کے دو دن قبل تک وہ شوٹنگ میں مشغول تھے۔ نجی ٹی وی چینلز کی آمد کے بعد ان کا شمار ان فن کاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے نئے ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا کی اور ساتھ ہی فن کے معیار پر سمجھوتا نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں جو بھی کام کیا اس سے انصاف کرتے دکھائی دیے۔ وہ مثبت کرداروں میں بھی اسی طرح ڈوب کر اداکاری کرتے جس طرح منفی میں۔ ان کے منفی کرداروں میں حقیقت کا گمان ہوتا۔ آپ 1930 ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لاہور سے ہی مکمل کی۔
حکومت پاکستان کی جانب سے 1988 میں قاضی واجد کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ قاضی واجد ادبی محفلوں میں شرکت کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں اردو ادب سے خاصا لگاؤ تھا۔ قاضی واجد ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا تھے ۔ اس کے باوجود انہوں نے خود کو چاک و چوبند رکھا ہوا تھا اور ہشاش بشاش دکھائی دیتے تھے۔ وہ بہروز سبزواری کے ساتھ سعودی عرب کے دورے سے لوٹے تھے، وہی بہروز جن کے ساتھ کئی دہائیاں قبل انہوں نے خدا کی بستی میں کام کیا تھا۔
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا
قاضی واجد نے سوگواران میں بیوہ اور ایک بیٹی فضیلہ قیصر کو چھوڑا ہے۔ ہمہ جہت فن کار قاضی واجد کے کام کوبھلایا نہیں جا سکتا اوریہ فن کے چاہنے والوں کو محظوظ کرتا رہے گا اور ان کی یاد دلاتا رہے گا، نیز نئے فن کاروں کو سیکھنے کا موقع دے گا۔
0 Comments