اُردو کے بڑے افسانہ نگاروں میں ویسے تو کئی نام لیے جا سکتے ہیں لیکن
سعادت حسن منٹو‘ کرشن چند اور راجندر سنگھ بیدی کا ذکر کیے بغیر بات مکمل نہ ہو گی۔ آج ہم راجندر سنگھ بیدی کے فن افسانہ نگاری کے بارے میں اپنے قارئین کو بتائیں گے۔ یکم ستمبر 1915ء کو پیدا ہونے والے راجندر سنگھ بیدی کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا۔ انہوں نے اردو افسانہ نگاری میں اپنا ایک الگ مقام بنایا‘ بیدی کی پیدائش سیالکوٹ میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام لاہور میں گزارے۔ جہاں انہوں نے اردو میں تعلیم حاصل کی۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’دانہ و دام‘‘ تھا۔ جس میں ان کا معرکہ آرا افسانہ ’’گرم کوٹ‘‘ بھی شامل تھا۔ یہ افسانوی مجموعہ 1940ء میں شائع ہوا۔
1942ء میں ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’گرہن‘‘ شائع ہوا۔ 1943ء میں انہوں نے لاہور کے ایک چھوٹے فلم اسٹوڈیو مہنیش واری فلمز میں شمولیت اختیار کر لی۔ ڈیڑھ برس بعد وہ دوبارہ آل انڈیا ریڈیو چلے گئے اور ان کی پوسٹنگ جموں میں کر دی گئی۔ وہ 1947ء تک آل انڈیا ریڈیو میں کام کرتے رہے اور وہ جموں اینڈ کشمیر براڈ کاسٹنگ سروس کے ڈائریکٹر بن گئے۔ تقسیم برصغیر کے وقت راجندر سنگھ بیدی نے کئی اور افسانے لکھے جو بے حد مقبول ہوئے انہوں نے اردو افسانے کو نہ صرف نیا اسلوب دیا بلکہ موضوعات کے حوالے سے بھی کئی تجربے کئے۔ ان کا ناولٹ ’’اک چادر میلی سی‘‘ بھی اس لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں انہوں نے اسلوب کے حوالے سے بالکل مختلف تجربات کئے۔ اس کے علاوہ اس ناولٹ کا موضوع بھی چونکا دینے والا تھا۔ اس ناولٹ پر ہندوستان اور پاکستان میں فلمیں بھی بنائی گئیں۔
ان کے دیگر افسانوی مجموعوں میں ’’کوکھ جلی‘‘ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ اور ڈراموں کا مجموعہ ’’سات کھیل‘‘ بھی شامل ہیں۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’’جو گیا‘ لاجونتی‘ گرہن‘ گرم کوٹ‘ کلیانی‘‘ اور کئی دوسرے افسانے شامل ہیں۔ بعض نقاد بھی ان کے افسانوں پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان میں ہندی الفاظ کی بھرمار ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں راجندر سنگھ بیدی کا کہنا تھا کہ اس کا انحصار اس ماحول پر ہے جس میں یہ افسانے لکھے گئے۔ اگر ایک افسانے میں پنجاب کے گائوں کا ماحول پیش کیا جا رہا ہے تو پھر کرداروں کی زبان بھی وہی ہو گی۔ اسی طرح اگر ایک افسانہ مکمل طور پر ہندو معاشرے کے پس منظر میں لکھا گیا ہے تو پھر زبان بھی وہی ہو گی۔ بیدی نے فرسودہ روایات معاشرتی تفریق اور معاشی انصاف پر بہت لکھا۔ وہ کردار سازی بھی کمال کی کرتے تھے۔
ان کے افسانوں کے بعض کردار امر ہو چکے ہیں۔ ان کے افسانوں کی ایک اور بڑی خوبی ان کی قوت مشاہدہ ہے۔ ان کے افسانوں میں ہمیں طنز و تشنیع بھی ملتا ہے۔ ان کے طنز کرنے کا انداز بھی بہت متاثر کن ہے۔ وہ روایتی انداز سے ہٹ کر طنز کے تیر چلاتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی بظاہر سادگی سے کہی ہوئی بات طنز کی چادر میں لپٹی ہوتی ہے اور بادی النظر میں یہ ہرگز محسوس نہیں ہوتا کہ بیدی نے طنز کے تیر چلائے ہیں۔ ذرا سا غور کریں تو پھر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ افسانہ نگار کمال مہارت سے اپنے فن کے جوہر دکھا گیا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی 1982ء میں شدید علیل ہو گئے اور اسی سال وہ چل بسے۔ ان کی یاد میں بھارتی پنجاب کی حکومت نے راجندر سنگھ بیدی ایوارڈ کا اجرا کیا یہ ایوارڈ ان کی اردو ادب کی خدمات کے حوالے سے شروع کیا گیا۔ راجندر سنگھ بیدی نے اردو ادب کی جتنی خدمت کی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی مکالمہ نگاری سے جو مقام بنایا اُس حوالے سے اُن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
عبدالحفیظ ظفرؔ
سعادت حسن منٹو‘ کرشن چند اور راجندر سنگھ بیدی کا ذکر کیے بغیر بات مکمل نہ ہو گی۔ آج ہم راجندر سنگھ بیدی کے فن افسانہ نگاری کے بارے میں اپنے قارئین کو بتائیں گے۔ یکم ستمبر 1915ء کو پیدا ہونے والے راجندر سنگھ بیدی کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا۔ انہوں نے اردو افسانہ نگاری میں اپنا ایک الگ مقام بنایا‘ بیدی کی پیدائش سیالکوٹ میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام لاہور میں گزارے۔ جہاں انہوں نے اردو میں تعلیم حاصل کی۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’دانہ و دام‘‘ تھا۔ جس میں ان کا معرکہ آرا افسانہ ’’گرم کوٹ‘‘ بھی شامل تھا۔ یہ افسانوی مجموعہ 1940ء میں شائع ہوا۔
عبدالحفیظ ظفرؔ
0 Comments