Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

الف لیلہ ایک ہزار داستانیں

الف لیلہ کا شمار دنیا کی مشہور ترین کہانیوں میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ الف لیلہ
کو آٹھویں صدی عیسوی میں عرب اُدبا نے تحریر کیا اور بعد ازاں ایرانی، مصری اور ترک قصہ گویوں نے اس میں ترمیم و اضافے کیے۔ الف لیلہ کا پورا نام ’’الف لیلۃ و لیلہ‘‘ ہے ، جس کا اُردو ترجمہ ’’ایک ہزار ایک رات‘‘ ہے۔ الف لیلہ کی سب سے پہلی کہانی کا نام ’’شہرزاد ‘‘ ہے ۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ سمرقندکا ایک بادشاہ شہریار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورتوں سے ہی بدظن ہوگیا۔ اُس نے یہ دستور بنا لیا کہ روزانہ ایک نئی شادی کرتا اور دلہن کو رات بھر رکھ کر صبح کو قتل کروا دیتا۔ آخر اس کے ایک وزیر کی بیٹی شہرزاد نے اپنی صنف کو اس عذاب سے نجات دلانے کا ارادہ کیا اور اپنے والد کو بمشکل راضی کر کے شہریار سے شادی کر لی۔

شہرزاد جانتی تھی کہ یہ شادی اس کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے، لیکن سمجھ بوجھ اور عقل مندی بھی کسی چیز کا نام ہے چنانچہ شہرزاد نے عقل کا استعمال کیا اور پہلی رات ہی سے بادشاہ کو ایک کہانی سنانا شروع کی۔ رات ختم ہوگئی، مگر کہانی ایک ایسے موڑ پر تھی کہ بادشاہ شہرزاد کو ہلاک کرنے سے باز رہا۔ ہر رات شہرزاد کہانی شروع کرتی اور صبح کے قریب اسے ایک ایسے موڑ پر روکتی کہ اس میں ایک نئی کہانی کا تجسس پیدا ہو جاتا اور وہ اس قدر دلچسپ ہوتا کہ بادشاہ اس کے بارے میں جاننے کے لیے شہرزاد کا قتل ملتوی کرتا چلا گیا۔ یہ سلسلہ ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل گیا۔ اس دوران بادشاہ اور شہر زاد کے تعلقات میں تبدیلی آتی گئی اور اُن کے ہاں دو بچے ہوگئے اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہی۔

بعض محققین کے مطابق الف لیلہ کی اکثر کہانیاں ، بابل ، فونیشیا، مصر اور یونان کی قدیم لوک داستانوں کو اپنا کر لکھی گئی ہیں اور انھیں حضرت سلیمان ، ایرانی سلاطین اور مسلمان خلفا پر منطبق کیا گیا ہے۔ ان کا ماحول آٹھویں صدی عیسوی کا ہے۔ محمد بن اسحاق نے ’’الفہرست‘‘ میں کہانیوں کی ایک کتاب ’’ہزار افسانہ  کا ذکر کیا ہے، جو بغداد میں لکھی گئی تھی اور اس کی ایک کہانی بھی درج کی ہے، جو الف لیلہ کی پہلی کہانی ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے کتاب کا نام ہزارافسانہ تھا نیز اس میں ایک ہزار ایک داستانیں نہ تھیں بعد میں مختلف مقامات پراس میں اضافے ہوئے اور کہانیوں کی تعداد ایک ہزار ایک کرکے اس کا نام
’’الف لیلۃ و لیلہ ‘‘ رکھا گیا۔
یورپ میں سب سے پہلے ایک فرانسیسی ادیب اینٹونی گلانڈ نے اس کا ترجمہ کیا اسی سے دوسری زبانوں میں تراجم ہوئے۔ اُردو میں یہ کتاب انگریزی سے ترجمہ ہوئی۔ الف لیلہ کی کچھ مشہور کہانیوں کے نام ، ’’الہ دین۔ علی بابا۔ مچھیرا اور جن۔ سندباد جہازی۔ تین سیب۔ سمندری بوڑھااور شہر زاد‘‘ ہیں۔ ان مشہور کہانیوں میں سے ایک کہانی ’’حاتم طائی ‘‘بھی ہے ، جو ہر دلعزیز ہے۔ کہانی یہ ہے کہ یمن میں ’’طے ‘‘ نامی ایک قبیلہ آباد تھا۔ اس قبیلے کے سردار کا نام حاتم طائی تھا۔ حاتم طائی اپنی سخاوت اور خدمت خلق کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس کی سخاوت کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں عرب کا حکمران نوفل تھا۔

نوفل بادشاہ ہونے کی حیثیت سے چاہتا تھا کہ ہر کوئی اس سے مدد طلب کرے اور اپنے مسائل کے حل کے لئے اس کے پاس آئے۔ نوفل ہر طرف حاتم کے چرچے دیکھ کر اُس سے حسد کرنے لگا اور ایک عرصے بعد یہ حسد دشمنی میں بدل گیا چنانچہ اس نے حاتم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اپنی فوج کے ساتھ حاتم کے علاقے پر حملہ کر دیا۔ حاتم کو یہ جان کر دکھ ہوا کہ بادشاہ نے ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ اس کے علاقے پر حملہ کردیا ہے۔ حاتم نے یہ سوچ کر کہ اس کی وجہ سے خون خرابا ہوگا بے گناہ لوگ مارے جائیں گے۔ اس نے اپنا شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ حاتم اپنا شہر چھوڑ کر پہاڑوں میں جا کر چھپ گیا۔ بادشاہ اپنی فوج کے ساتھ جب شہر میں داخل ہوا ،تو کسی نے اس کی فوج کامقابلہ نہ کیا کیونکہ حاتم طائی شہر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ بادشاہ نے حاتم کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہ نے یہ اعلان کروادیا کہ جو شخص حاتم کوڈھونڈ کر لائے گا،اس کو بہت بڑا انعام دیا جائے گا۔ حاتم نے پہاڑ کی ایک کھوہ میں پناہ لے رکھی تھی۔

ایک روز اسی کھوہ کے قریب ایک بوڑھا لکڑہارا اور اس کی بیوی لکڑیاں کاٹ رہے تھے۔ وہ بہت غریب تھے اور مشکل سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ روز روز کی محنت و مشقت سے تنگ آئی ہوئی لکڑہارے کی بیوی حسرت سے بولی: کاش حاتم طائی ہمارے ہاتھ لگ جاتا، تو ہم اسے بادشاہ کے حوالے کرکے انعام پالیتے اور ہمیں روز روز کی اس مصیبت سے نجات مل جاتی۔ لکڑہارا بولا: فضول بات مت سوچ ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حاتم ہمارے ہاتھ لگ جائے اور ہم انعام حاصل کرکے آرام سے زندگی بسر کرسکیں۔ ہمارے نصیب میں تو صرف محنت اور مشقت لکھی ہے۔ حاتم طائی کھوہ کے اندر بیٹھا یہ باتیں سن رہا تھا۔ یہ سوچ کر حاتم دل میں خوش ہوا کہ چلو وہ اس بے سروسامانی کی حالت میں بھی کسی کے کام آسکتا ہوں چنانچہ وہ کھوہ سے باہر آیا اور بوڑھے میاں بیوی سے بولامیں ہی حاتم ہوں۔ مجھے بادشاہ کے پاس لے چلو اور اس کے حوالے کرکے انعام حاصل کرلو۔ جلدی کرو، اگر کسی اور نے مجھے دیکھ لیا، تو پھر تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔

 حاتم کی باتیں سن کر لکڑہارا بولا: بھائی، تمہارا بہت شکریہ، بے شک ہم غربت کے ستائے ہوئے ہیں، مگر ہم اتنے ظالم نہیں کہ تمہیں بادشاہ کے حوالے کرکے انعام حاصل کریں۔ ہم اسی طرح محنت مزدوری کرکے زندگی کے دن کاٹ لیں گے۔ اپنے آرام کی خاطر ہم یہ ظلم نہیں کریں گے۔ حاتم نے کہا: ارے بھائی! یہ ظلم نہیں،تم مجھے زبردستی پکڑ کر تو نہیں لے جارہے ہو۔ میں تو اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ جانے کو تیا رہوں۔ میرے اوپر تمہارا یہ احسان ہوگا کہ تم مجھے نیکی اور خدمت کا موقع دو گے۔ حاتم نے ان کو آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی  لیکن لکڑہارا کسی صورت تیار نہ ہوا، تو حاتم نے اس سے کہا: اگر تم میری بات نہیں مانتے تو میں خود بادشاہ کے پاس جاتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں کہ اس بوڑھے نے مجھے چھپایا ہوا تھا، پھر بادشاہ تمہیں سزا دے گا۔ لکڑہارا اور حاتم اس بحث میں مصروف تھے کہ کچھ اور لوگ حاتم کو تلاش کرتے ہوئے ادھر نکلے۔ انہوں نے حاتم کو پہچان لیا اور اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ 

بوڑھا اور اس کی بیوی بھی ان لوگوں کے پیچھے چل پڑے۔ بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص یہ دعویٰ کررہا تھا کہ حاتم کو اس نے پکڑا ہے، وہی انعام کا مستحق ہے۔ بہت سارے دعویداروں کی وجہ سے بادشاہ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ حاتم کو پکڑنے والا کون ہے؟ آخر بادشاہ نے حاتم سے کہا: حاتم، تم ہی بتاؤ کہ تمہیں پکڑ کر لانے والا کون ہے تاکہ اسے انعام کی رقم دی جائے۔ حاتم بولا: حضور والا! سچ تو یہ ہے کہ مجھے پکڑنے والا بوڑھا لکڑہارا ہے، جو چپ چاپ پیچھے کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا ہے۔ باقی لوگ انعام کے لالچ میں جھوٹ بول رہے ہیں۔ لکڑا ہارا بولا: حضور والا! سچ تو یہ ہے کہ میں حاتم کو پکڑ کر نہیں لایا بلکہ یہ خود آیا ہے، پھر لکڑہارے نے بادشاہ سلامت کو تفصیل سے بتایا کہ کس طرح لکڑیاں کاٹتے وقت اس کی بیوی نے کہہ دیا تھا کہ اگر حاتم ان کو مل جائے، تو وہ اسے بادشاہ کے حوالے کرکے انعام پائیں اور مصیبت کی زندگی سے نجات پائیں۔ حاتم ہماری باتیں سن کر پہاڑ کی کھوہ سے نکل آیا اور اصرار کرنے لگا کہ ہم اسے بادشاہ کے پاس لے جائیں اور انعام پائیں۔ ہم جب حاتم کو کسی طرح بھی لانے پر تیار نہ ہوئے تو وہ خود ہی آپ پاس آنے کے لیے چل پڑا۔ دوسرے لوگ تو ویسے ہی چل پڑے تھے۔ اب یہ سب انعام کی خاطر جھوٹ بول رہے ہیں۔ بادشاہ کو جب حقیقت معلوم ہوئی ،تو اس نے حاتم سے کہا: حاتم! میں تمہاری شہرت سے تمہارا دشمن بن گیا تھا۔ مجھے اپنے کیے کا افسوس ہے۔ تم واقعی ایک عظیم انسان ہو۔ میں تم سے اپنے کیے کی معافی مانگتا ہوں۔

اس کے بعد بادشاہ نے لکڑہارے کو انعام دیا اور جھوٹے دعویداروں کو سزا دی اور حاتم کا سارا علاقہ اسے واپس کرنے کا اعلان کیا۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ عرب مورخ محمد بن اسحاق نے کتاب ’’الفہرست ‘‘میں کہانیوں کی، جس کتاب کا ذکر (ہزار افسانہ)کے نام سے کیا ہے، وہ دراصل الف لیلہ ہی ہے اور اس میں جو کہانی بطور نمونہ ہے وہ الف لیلہ کی پہلی کہانی ہے۔ کچھ لوگ اس سے یہ نتیجہ بھی نکالتے ہیں کہ الف لیلہ پہلے (ہزار افسانہ) کے نام سے موجود تھی۔ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے بھی الف لیلہ کی کہانیاں چھاپی ہیں۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کا ایڈیشن انتہائی عمدہ ہے۔ عام خریداروں کے لیے اس کی قیمت کچھ 
زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن عمدگی کو دیکھتے ہوئے زیادہ نہیں ۔

دانش احمد


Post a Comment

0 Comments