جب میں تنہا ہوتی ہوں ایک لڑکی میرے ساتھ رہتی ہے اس کے لفظوں کی خوشبو میرے تن من کو مہکاتی رہتی ہے، دنیائے ادب اسے پروین شاکر کے نام سے پکارتی ہے لیکن میں اسے خوشبو کہتی ہوں اس کی تصویر پر نظر پڑتی ہے تو بے اختیار زیرِ لب ایک صدا آتی ہے ’’گلاب چہرہ ستارہ آنکھیں‘‘ وہ کسی شاعر کا خواب تھی یا مجسم غزل مجھے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ ان خوش نصیب ہستیوں میں سے تھی کہ جنہوں نے کم عمری میں ہی ذہانت و ادراک کی بے شمار منزلیں طے کرلیں۔ محبتیں اس کا تعاقب کرتی رہیں اور وہ محبتوں کے سفر میں تنہا معاشرے کی سفاکیت سے لڑتی رہی۔
سارے جہاں سے کٹ گئے کتنے اکیلے رہے گئے
کس نے کہا تھا عمر بھر غم سے نباہ کے لئے
وہ اپنی ذات اور معاشرے کے کرب کو تنہا اپنے وجود میں سمیٹتی رہی لیکن وقار و خود اعتمادی کے ساتھ۔ اعلیٰ تعلیم نے اسے شعور بخشا تھا۔ اپنی ذات کی اہمیت و نفی کا شعور، وہ جانتی تھی کہ عورت معاشرے میں ایک مکزور و مظلوم ہستی کے روپ میں زندہ رکھی گئی ہے جیسے ہی اسے اپنے اندر موجود طاقتور ہستی کا احساس ہوتا ہے اور وہ اسے باہر لانے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک کمزور صنف طاقتور صنف کے مد مقابل آواز تو اٹھاتی ہے مگر اس کی آواز باقی رہ جاتی ہے اور وہ خود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سامنے ’’خوشبو‘‘ ہے،
’’کچھ کم ہوش یہ کہتے ہیں کہ اس لڑکی کی شاعری میں سوائے بارش کی ہنسی، پھولوں کی مسکراہٹ، چڑیوں کے گیتوں اور اس کی اپنی سرگوشیوں کے اور کچھ نہیں، اگر زندگی سے محبت کرنا جرم ہے تو یہ لڑکی پورے غرور کے ساتھ اپنے جرم کا اعتراف کرتی ہے‘‘۔
نیم خوابی کا فسوں بڑی دیر سے ٹوٹتا ہے، پر جب ایسا ہوا تو روزنِ زنداں سے آنے والی، اجنبی سیاہ بخت سر زمینوں کی ہوا کے آنسوؤں کو اس نے اپنی پلکوں پر محسوس کیا ہے، ان کا نمکین ذائقہ، اس کی شہد آشنا زبان نے چکھا ہے، لیکن جو لڑکی بسنت بہار کی نرم ہنسی میں بھیگ چکی ہو، اسے خزاں سے دکھ تو ہوسکتا ہے عناد نہیں، جس کے اکیلے گھر میں شدید چڑیا کا گیت چہرے اگا چکا ہو، اسے سناٹے سے وحشت تو ہوسکتی ہے نفرت نہیں۔ (میرے خوشبو ص:۱۹)
یہ تھی رائے پروین شاکر، اُس تخلیق کار کے لئے جو خوشبو، صد برگ، خود کلامی، انکار، کف آئینہ، ماہ تمام، گوشہ چشم ( کالم ) کی مصنفہ تھیں۔
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا ۔
پروین شاکر نے زندگی کے مختصر سے سفر میں شکست و ریخت کے کئی باب کھلتے اور بند ہوتے دیکھے تھے۔ بازو بریدہ اور شکست بدن قوم کے دکھ کو محسوس کیا تھا، جھوٹ کے شہر میں آئینہ پر سنگ باری کے مناظر کچھ نئے نہ تھے۔ جنگلوں کے سفر میں آسیب سے بچ جانے والے شہر کی بلاؤں میں کس طرح گرفتار ہوئے۔
دشتِ غربت میں جہاں کوئی شناسا بھی نہیں ~ ابر رُک جائے ذرا دیر تو رحمت
زیست کے تمام نشیب و فراز ہمیں پروین شاکر کے کلام پر صرف ایک نظر میں آپ پروین کے شاعرانہ مقام کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ شہرت کی بلندی پر وہ بڑے بڑے شعراء کو مات دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے
دستار کے ہوتے ہوئے سرکاٹ رہا ہے
(خوشبو)
میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر اے خدا لگ گئی
کیسی کیسی دعاؤں کے ہوتے ہوئے بدعا لگ گئی
(کف آئینہ)
اپنی تنہائی مرے نام پر آباد کرے
کون ہوگا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے
(صد برگ)
سنو پروین شاکر مجھے نہیں معلوم کہ اس طرح تمہیں یاد کرسکتی ہوں یا نہیں، لیکن یہ یاد رکھنا کی تمہارے چاہنے والوں نے تمہارے جانے کے بعد تمہیں بھلایا نہیں۔
پروفیسر سیما سراج
0 Comments