جمیل الدین عالی کا سوموار (تئیس نومبر) کو تقریباً 90 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ جنہیں نہیں معلوم کہ عالی جی کون تھے کیا تھے انہوں نے نور جہاں کی آواز میں ’اے وطن کے سجیلے جوانو‘ یا مہدی ظہیر کی آواز میں ’ہم تا با ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں‘ یا شہناز بیگم کی آواز میں پاکستان کا غیر سرکاری قومی ترانہ ’جیوے جیوے پاکستان‘ یا الن فقیر کی آواز میں ’اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا‘ میں سے کوئی گیت تو سنا ہوگا۔ ان سب گیتوں کے خالق جمیل الدین عالی تھے۔
شعر گوئی تو یوں بھی عالی جی کی گھٹی میں پڑی تھی۔ دادا نواب علاؤ الدین خان آف لوہارو سٹیٹ مرزا غالب کے دوست بھی تھے اور شاگرد بھی۔ والدہ جمیلہ بیگم کا شجرہ خواجہ میر درد سے ملتا تھا۔ والد سر امیر الدین خان سخت ادب نواز تھے لہٰذا شاعری عالی جی کی مجبوری نہیں فطرتِ ثانیہ تھی۔
عالی جی کا بنیادی کارنامہ یہ ہے کہ دوہے کی گنگا جمنی صنف کو کبیر اور تلسی داس کی کٹیا سے کھینچ کر جدید شعری دنیا میں لا کھڑا کیا اور نئی نسل کے لیے دوہا زود ہضم بنایا۔
قیامِ پاکستان سے ایک دن پہلے جب وہ دہلی سے کراچی پہنچے تو خاندانی پس منظر کے سبب فیصلہ ساز حلقوں میں اپنا تعارف کراتے پھرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور انیس سو باون میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے عالی جی انکم ٹیکس کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور وہاں سے بینکاری (نیشنل بینک اور بینکنگ کونسل) میں چلے گئے۔
مگر اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہونے کے باوجود وہ نمک در کان ِ نمک نہیں بنے بلکہ تعلقاتی و سماجی نیٹ ورک سے فروغِ اردو کا کام لیا۔ وہ اردو جو ان کی پہلی محبت تھی۔ پچاس کے عشرے میں انجمن ترقی اردو میں ڈکشنری سازی کے کام میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا ہاتھ بٹاتے رہے۔
انیس سو انسٹھ میں جن ادب نواز بیورو کریٹس نے رائٹرز گلڈ کی بنیاد رکھی ان میں الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب کے ساتھ ساتھ عالی جی بھی شامل تھے۔ جب تک گلڈ کا دفتر کراچی میں رہا عالی جی اس کے سیکریٹری رہے۔
انیس سو اکسٹھ میں بابائے اردو کا انتقال ہوا تو عالی جی انجمن ِ ترقی اردو کے بھی سیکرٹری بن گئے اور اگلے چھ عشروں تک بنے رہے۔
عالی جی نہایت وضع دار شخصیت تھے۔ ہر حکومت سے بنا کے رکھی اور اس تعلق کو اجتماعی فائدے کے لیے زیادہ استعمال کیا۔ مثلاً وفاقی اردو سائنس کالج کی تشکیل اور پھر اسے یونیورسٹی کے درجے تک پہنچانے میں عالی جی کا اہم کردار رہا۔ اردو ڈکشنری بورڈ کی تین برس تک سربراہی کی اور اس کے ڈھانچے کو خاصا فعال بنایا۔
لگ بھگ 50 برس روزنامہ جنگ میں کالم نگاری کی (کالموں کے دو مجموعے ’دعا کر چلے‘ اور ’صدا کر چلے‘)۔
انسان کے عنوان سے نظم لکھی جس کا موضوع انسانی کامیابیاں و ناکامیاں ہیں۔ اس کا شمار اردو کی طویل ترین نظموں میں ہوتا ہے۔
انیس سو ستاون میں شاعری کا پہلا مجموعہ ’نظمیں، دوہے، گیت‘ کے نام سے شائع ہوا۔ بعد ازاں لاحاصل، جیوے پاکستان، انسان، اے میرے دشتِ سخن اور نئی کرن شائع ہوئے۔ شعر بالخصوص دوہے ترنم سے پڑھتے تھے اور اپنے گیتوں کی دھنیں بنانے میں بھی دخیل تھے۔
سیر سپاٹا بھی خوب کیا اور ’دنیا میرے آگے‘ ، ’تماشا میرے آگے‘، ’آئس لینڈ‘ نام سے تین سفر نامے لکھے۔
عالی جی نے ملکی سیاست قدم نہیں رکھا مگر سیاست خود ان تک چل کے آ گئی۔ جیسے انیس سو ستتر کے انتخابات میں انہیں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو اکیانوے کا ٹکٹ تھما دیا۔ عالی جی بھی جانتے تھے کہ ہار جائیں گے مگر نہ نہیں کرسکے۔
پاکستانی حکومتوں نے بھی عالی جی کی ادبی و انتظامی خدمات کو سراہا اور پرائیڈ آف پرفارمنس، ستارہِ امتیاز، ہلالِ امتیاز اور کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا۔ کراچی یونیورسٹی نے انہیں گیارہ برس پہلے ڈی لٹ کی ڈگری عطا کی۔
عالی جی کی وفات سے اردو تہذیب کا ایک کلاسیکی باب مکمل ہوا۔
وسعت اللہ خان
0 Comments