دنیا کے تمام قابل احترام بڑے لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں جھانک کر دیکھیے آپ کو ایسی کئی چیزیں پوشیدہ نظر آئیں گی جو انہیں بڑا آدمی بناتی ہیں۔ اُس شخصیت کی تعمیر میں کئی لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے جو اُسے اوپر ہی اوپر اُوج ثریا تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اشتیاق احمد بھی ایسے ہی فرد تھے۔ انہیں ’’جھنگ‘‘ سے محبت تھی۔ اپنے بچوں سے، اُن گلی کوچوں سے جہاں زندگی کی کئی بہاریں اُنھوں نے گزاری تھیں۔ یہ جھنگ سے محبت ہی تھی کہ انہوں نے جھنگ میں رہنا پسند کیا۔ ورنہ لوگ جب بڑے ہوجاتے ہیں تو چھوٹے چھوٹے شہروں میں رہنا پسند نہیں کرتے، نہ اُنھیں وہاں اپنا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ پاکستان بننے سے قبل 5 جون 1944ء کو انڈیا کے تاریخی شہر پانی پت میں پیدا ہونے والے اشتیاق احمد تقسیم کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ وہ جھنگ میں بسے اور جھنگ کے ہوکر رہ گئے حتیٰ کہ وہ روزنامہ اسلام کے تحت نکلنے والے پرچے ’’بچوں کا اسلام‘‘ کے مدیر بنے، انہیں کراچی بلوانے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن انہوں نے جھنگ کے اسی مکان میں رہنے کو ترجیح دی جس میں وہ رہتے آئے تھے۔
ناولوں کے مصنف اشتیاق حمد صرف میٹرک پاس تھے۔ کچھ کرنے کے لیے روایتی تعلیم پیروں میں زنجیر نہیں بنی۔ انہوں نے صرف ابن صفی اور نسیم حجازی کو نہیں پڑھا بلکہ وہ کئی مغربی مصنفین کو پڑھ چکے تھے۔ بچوں کے معروف رسالے ماہنامہ ساتھی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ’اگاتھا کرسٹی‘ کو بھی پڑھ چکے ہیں۔
اُن کے ناولوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پوری دنیا میں شاید ہی کسی مصنف نے 800 ناول لکھے ہوں۔ وہ لکھنے کی مشین تھے۔ انہوں نے لکھا اور بہت ہی اچھا لکھا۔ بچے، بڑے سب ہی ان کے ناولوں کے شیدائی تھے۔ اشتیاق احمد ایک دفعہ بتا رہے تھے کہ ایک دن انہوں نے اخبار میں پڑھا کہ دنیا کا سب سے تیز مصنف ایک منٹ میں اتنے الفاظ لکھ لیتا ہے۔ اشتیاق احمد صاحب نے بھی وقت نوٹ کرکے جب لکھا تو وہ الفاظ اس سے کہیں زیادہ تھے جو دنیا کا تیز ترین مصنف لکھتا تھا۔
جب ان سے دریافت کیا گیا کہ وہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام کیوں درج نہیں کرواتے تو کہنے لگے: ’’ذاتی طور پر مجھے اس کا شوق نہیں مگر میرے بعض دوستوں کا خیال تھا کہ اس طرح پاکستان کا نام روشن ہوگا، اسی وجہ سے سلیم مغل (سابق مدیر آنکھ مچولی) نے کافی کوششیں کیں۔ مگر گنیز بک والوں کا کہنا تھا کہ ان سب ناولوں کے ٹائٹل کی ویڈیو بنا کر ہمیں بھیجی جائیں لیکن سب ناولوں کا ریکارڈ اشتیاق احمد کے پاس بھی موجود نہیں تھا۔ دوسری وجہ اشتیاق احمد نے یہ بتائی کہ اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ فلم کا خرچ اٹھا سکوں اس لیے یہ معاملہ رہ ہی گیا۔
ناولز تو اشتیاق احمد نے لکھے ہی لکھے۔ اس کے علاوہ بے شمار کہانیاں وہ لکھ چکے تھے۔ یہ کہانیاں نونہال، بچوں کا اسلام، ماہنامہ ساتھی، ذو ق وشوق میں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ انہیں کئی ادبی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔ اشتیاق احمد کی کہانہاں بچوں میں بے حد مقبول تھیں۔ ایک شخص کے دماغ میں بیک وقت اتنے سارے آئیڈیاز کیسے کلبلاسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب بھی اشتیاق صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ ایک ڈائری ان کی جیب میں ہر وقت موجود رہتی ہے، جیسے ہی کوئی خیال ان کے ذہن میں آتا ہے۔ وہ اسے لکھ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ لکھنے کے اوقات بھی ان کے مخصوص تھے۔ وہ ایک خاص وقت میں بیٹھ جاتے اور لکھتے رہتے۔ دن کے آٹھ دس صفحات کا کوٹا پورا کرکے اُٹھتے۔ دن کے آٹھ دس صفحات لکھنا ان کے ابھی کا قصہ ہے، جوانی میں تو اس سے بھی زیادہ ہی لکھا کرتے تھے۔
’’بچوں کا اسلام‘‘ نے ان کے نام کی وجہ سے وہ مقبولیت حاصل کی جو کم ہی کسی رسالے کے حصے میں آتی ہے۔ بچوں کا اسلام نے ان کا وقت بہت زیادہ لیا۔ وہ کہتے تھے ادیب بننا آسان ہے جو جی میں آیا لکھ دیا لیکن مدیر بننا بہت مشکل ہے۔ بے شمار ڈاک میں سے ایک اچھی تحریر نکالنا ایسا ہے جیسے بھوسے میں سے سوئی نکالنا۔ ادب کی طرف جھکائو ان کے بھائی آفتاب احمد کا بھی تھا۔ جو جوانی میں انتقال کرگئے لیکن انہوں نے بھی بچوں کے لیے لکھا۔
اشتیاق احمد پاکستان کے وہ واحد قلمکار تھے جنہوں نے بچوں کے لیے لکھا اور اسی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ پاکستان میں بچوں کے ادیبوں کے ساتھ ہماری حکومت اور اداروں کا جو رویہ ہے وہ افسوسناک ہے۔ بچوں کے تقریباً تمام ادیب اس عدم توجہی پر شاکی ہیں۔ بہت اچھا اور عمدہ لکھنے والے قلمکار بچوں کے ادب کو اپنا ذریعہ معاش نہیں بنا پائے۔ یہ تو اشتیاق احمد کے قلم کا جادو تھا۔ وہ غیر معمولی شخصیت تھے۔ جس نے اپنے ناولوں کے ذریعے خود کو زندہ رکھا۔
اشتیاق صاحب مذہبی آدمی تھے۔ دین کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
وہ جن علمائے کرام کے زیر انتظام رہے انہوں نے اشتیاق احمد کو ایک طرف ہی رکھنے کی کوشش کی۔ ہمارے ایک صحافی دوست بتا رہے تھے کہ کسی زمانے میں ایک نجی چینل نے اشتیاق احمد کا انٹرویو کرنے کا سوچا۔ اشتیاق احمد سے بات ہوئی تو اشتیاق احمد نے کہا کہ وہ اپنے علما سے پوچھ کر بتائیں گے۔ ’بڑے‘ علماے کرام نے انہیں منع کردیا کہ ٹی وی پر آنا شرعاً درست نہیں۔ چند برس گزرنے کے بعد وہی علما کرام اپنا چینل لانچ کرنے کے منصوبے بنانے لگے اور وہ سارے بڑے علمائے کرام مختلف چینلزپر رونق افروز بھی ہوتے رہے۔
اشتیاق احمد سب سے محبت کرتے ہیں اور سب لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ بک فیئر میں تین دن مسلسل ان سے ملتا رہا۔ میں نے کہا کہ بچوں نے ناک میں دم کرکے رکھا ہے۔ اشتیاق احمد کا انٹرویو کرنے کا کہتے ہیں۔
کہنے لگے:’’جب جی چاہے لے لینا۔
میں نے کہا: ’’ابھی تو آپ کے لیے بھی مشکل ہے۔ میں سوالات بھیجوا دوں گا اور کچھ باتیں یہاں کرلوں گا۔ کہنے لگے: ’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘‘۔ پھر اگلے دن خود یاد دلایا کہ سوالات بھجوادینا۔ میں لکھ دوں گا۔
میں نے ازراہِ مذاق کہا :’’ یہاں آکے تنگ ہوجاتے ہوں گے۔ سارا دن بچوں کا رش اور آٹو گراف
بیزاری سے کہا: ’’اب نہیں آئوں گا۔ سارا دن بیٹھے رہو۔
رات آٹھ بجے کے قریب آخری ملاقات ہوئی تو میں نے اگلے دن کھانے کی دعوت دی ۔۔۔۔ کہنے لگے کہ کل واپسی ہے صبح۔ مجھے کیا پتا تھا کہ وہ لاہور کی فلائٹ نہیں بلکہ ایک لمبی فلائٹ لے کر جانے والے تھے۔
بینا صدیقی ٹھیک ہی کہتی ہیں: ’’ہم اشتیاق احمد کی تحریریں پڑھ کر بڑے ہوئے ہیں آج بھی ان کے ناولز پڑھ کر تفریح حاصل کرتے ہیں۔ بے شمار پبلشرز، ڈیلرز، سپلائرز حتیٰ کہ ردی والوں نے ان کے ناولز بیچ کر بہت پیسے کمائے لیکن وہ آخر وقت تک سفید پوش رہے۔
احمد کا آخری ناول ’’عمران کی واپسی‘‘ تھا۔ یہ 800واں ناول تھا جو انہوں نے فاروق احمد کی فرمائش پر لکھا تھا۔ میں نے پوچھا کہ اب عمران سیریز لکھنے کا ارادہ ہے۔ کہا کہ نہیں صرف یہ ایک ہی ناول لکھا ہے اور نہیں لکھنی عمران سیریز۔
ان کے جاسوسی ناولز نے بہت سارے بچوں کو پولیس کی راہ دکھائی۔ اسلام آباد کا آئی جی غلام رسول زاہد ان میں سے ایک ہے۔
اشتیاق احمد کے قلمی ناموں نے بھی بہت شہرت حاصل کی۔ جن میں عبداللہ فارانی، سرور مجذوب، ارشاد الٰہی وغیرہ شامل ہیں۔ 17 نومبر2015ء کو بچوں کے ادب کی تاریخ کا درخشندہ ستارہ ڈوب گیا۔ اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔
اعظم طارق کوہستانی
اعظم طارق کوہستانی
0 Comments