Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ابنِ صفی کا سفرِ زیست

1950ء کی بات ہے ،محفل شباب پر تھی، موضوع تھا کہ اردو ادب میں آج کل کیا کچھ پڑھا جا رہا ہے؟ اس محفل کے روح رواں پانچ دوست تھے۔ اسرار احمد، جمال رضوی، مجاور حسین، آفاق حیدر اور عباس حسینی۔ مجاور حسین نے کہا۔ ’’اردو کے سری ادب میں طبع زاد لکھنے والے نہیں ہیں۔ جو کچھ بھی چھپ رہا ہے وہ انگریزی کا ترجمہ ہے۔ اس سلسلہ میں خان محبوب طرزی اور ظفر عمر کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔

 ظفر عمر نے مارس لیبلانک کے کردار آرسن لوپن کو نہایت بے ڈھنگے انداز میں بہرام ڈاکو کے نام سے پیش کیا ہے۔ ‘‘ ’’میرا بھی یہی خیال ہے۔ ‘‘ اسرار احمد نے کہا۔ ’’ان ناولوں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی انگریز سرپر پھندنے والی ٹوپی لگائے چلا آ رہا ہے۔ ‘‘ ظفر عمر نے بہرام کے چار ناول تخلیق کئے تھے مگر وہ عوام میں مقبولیت حاصل نہ کر سکے اور اس سلسلے کو بند کر دینا پڑا۔ اس سلسلے کا پہلا ناول ’’نیلی چھتری’‘ تھا۔ جمال رضوی نے کہا: ’’ناول وہی کامیاب ہو سکتے ہیں جن میں گلیمرہو۔ ان کے علاوہ تاریخی ناول بھی بک جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ان میں ایک سیدھا سادہ بادشاہ، اس کا عیار وزیر اور حسین ملکہ ہوتی ہے۔ وزیر ہر لمحہ اقتدار پر قابض ہونے کے منصوبے بناتا رہتا ہے اور ملکہ پر بھی بری نظر رکھتا ہے۔

 ایسے ناولوں کا ماحول عرب اور اس سے ملحقہ ممالک کا ہوتا ہے جن میں شدت سے مساجد، کھجور کے درختوں اور اونٹوں کا تذکرہ ہوتا ہے تاکہ سیدھے سچے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جاسکے۔ ان میں قاری کی دلچسپی کا مسالا کچھ اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ اسے گلیمر کے ساتھ تاریخ پڑھنے کو مل جاتی ہے۔‘‘ ’’صحیح کہا جیسے صادق سردھنوی کے ناول جنہیں پڑھ کر سوائے سردھننے کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘ جمال رضوی بولے۔ ’’مگر مجھے اختلاف ہے۔

 اگر ناولوں میں زبان دلچسپ اور پلاٹ جان دار ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسے ناول مارکیٹ نہ بناسکیں اور عوام میں مقبولیت حاصل نہ کر سکیں۔ ‘‘ اسرار احمد نے کہا۔ ’’ویسے اگر سیکسیٹن بلیک سیریز کی طرز پر اردو میں ایک جاسوسی ماہنامہ نکالا جائے تو کامیاب ہو سکتا ہے۔ ‘‘ عباس حسینی نے خیال پیش کیا۔ دوستوں کا خیال تھا کہ راہی معصوم رضا چونکہ گارڈنر، ایڈگرویلس اور اگا تھا کرسٹی کو دوسرے شرکاء کی بہ نسبت زیادہ پڑھ چکے ہیں، لہٰذا وہ بہت اچھی جاسوسی کہانی لکھ سکتے ہیں، لیکن مجاور حسین نے راہی کو نظر انداز کر دیا اور وکٹرگن کا ایک ناول ’’آئرن سائیڈزلون ہینڈ’‘ اسرار احمد کو تھما دیا کہ اسے بنیاد بنا کر ایک کہانی لکھو۔ ’’میں کوشش کرتا ہوں ، لیکن ایک تجربہ کروں گا کہ ناول میں عامیانہ پن نہ ہو اور اسے کامیاب کر کے دکھاؤں۔ ‘‘ اسرار احمد نے کہا۔ 

وہ دہریت کے رجحان کو بھی ختم کرنا چاہتے تھے جو نسل کے ذہنوں میںکسی ناسور کی طرح پرورش پا رہا تھا۔ اس خیال اور ارادے کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے ایک جاسوسی ناول لکھا۔ اسے پڑھا تو پسند نہیں آیا۔ مجبوراً اس کا مسودہ پھاڑ دیا۔ دوسری بار لکھا۔ مطمئن نہیں ہوئے اور اسے بھی پھاڑ کر ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔ چوتھی بار ایک ناول لکھا اور اس کا نام ’’دلیر مجرم’‘ رکھا ۔یہ مارچ 1952ء میں شائع ہونے والا اردو کا پہلا اوریجنل جاسوسی ناول تھا جس میں انسپکٹر احمد کمال فریدی اور سارجنٹ ساجد حمید کے کرداروں کو کچھ اس انداز سے پیش کیا گیا تھا کہ لوگوں نے اسے پسند کیا۔

اس ناول کے مصنف تھے ابن صفی! یہ اسرار احمد ہی تھے جنہوں نے اپنے والد صفی اللہ کی نسبت سے قلمی نام اختیار کیا تھا۔ ناول مارکیٹ میں آیا اور ایک ہفتے میں الہٰ آباد میں فروخت ہو گیا۔ دوسرا ایڈیشن زیادہ تعداد میں چھاپا گیا اور دوسرے شہروں کو بھی بھیجا گیا۔ وہ بھی فوراًبک گیا۔ دور دور سے فرمائشیں آنے لگیں۔ پھر ہر ماہ لوگ جاسوسی دنیا کا انتظار کرنے لگے۔ اس کے بعد شائع ہونے والے ناولوں میں خوفناک جنگل، عورت فروش کا قاتل اور تجوری کا راز شامل تھے۔ 1954ء میں جبکہ ان کی عمر صرف 26 برس تھی‘ وہ برصغیر ہند و پاک میں اردو پڑھنے والوں کے حواس پر چھا چکے تھے۔

لوگوں کو ان کے ناولوں کا انتظار رہنے لگا تھا۔ ناولوں کی عدم دستیابی پر وہ انہیں بلیک سے خریدنے پر تیار رہتے تھے۔ ابن صفی 28برس تک اپنے قلم کا جادو جگاتے رہے اور ان کا کوئی ہم عصر ان جیسی بلندی اورسرفرازی حاصل نہ کر سکا۔ ان کے خیالی کردار زندہ وجاوید ہو گئے۔ وہ بلاشبہ اردو کے سری ادب کے بے تاج بادشاہ کہلانے کے مستحق ہیں۔ کہتے ہیں کہ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ان کے ناول بہت پسند تھے اور اپنے جاننے والوں سے ابن صفی کے نئے ناول کے بارے میں استفسار کرتے رہتے تھے۔ نیا ناول شائع ہو چکاہوتا تو اسے مارکیٹ سے منگواتے اور پڑھنے کے بعد نہایت اہتمام سے ان ناولوں کو اپنی کتابوں کے شیلف میں جگہ دیتے تھے۔

پہلے وہ اگا تھا کرسٹی، پراو چینی اور انگریزی کے دوسرے ناول پڑھتے تھے مگر بعد میں انہیں چھوڑ دیا۔ وہ کہا کرتے تھے۔ ’’ابن صفی مجھے خاص طور پر اس لئے پسند ہے کہ وہ نیک نیتی سے لکھنے والا ہے۔ وہ مجھے اس لئے بھی پسند ہے کہ اس نے اردو ادب کو انگریزی ادب کے برابر لاکھڑا کیا ہے اور کہیں کہیں تو اس کا قد غیر ملکی لکھنے والوں کے مقابلے میں نکلتا ہوامحسوس ہوتا ہے۔ ‘‘ ابنِ صفی کے ناول ’’پاگل کتے ‘‘ پر پابندی لگنے والی تھی مگر صدر محمد ایوب خان نے انتظامیہ کو منع کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خود محمد ایوب خان ابن صفی کے ناولوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ (ان کی ایک تصویر1960ء میں اُردو کے ایک اخبارمیں شائع ہوئی تھی جس میں وہ ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا مطالعہ کر رہے تھے)۔

 (ابنِ صفی پر لکھے گئے ایک تفصیلی مضمون سے اقتباس)  

Post a Comment

0 Comments