Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ابن انشا کا آخری کالم...

لندن ایک جہان رنگا رنگ ہے۔ ہمارا تو اسے دیکھ کے جی دنگ ہے۔ گرمی، سردی، بہار، خزاں… اس کی رونق میں کوئی فرق نہیں۔خیر پھر کبھی مائیک کے سامنے آئیں گے تو موسموں اور لوگوں، بازاروں اور خریداروں کی جھلکی بھی آپ کو دکھائیں گے۔ فی الحال سردیوں کا نزول ہے۔ گرمی کی گفتگو فضول ہے۔ تھوڑی دیر کو دریچے بند کر کے ، پردے کھینچ کے ٹیلی ویڑن کے آگے ٹھیکی لیتے ہیں۔یہاں بھی وہی کاروبار ہے۔ ہر پروگرام کے درمیان اشتہار ہے۔

 خبر دینے والا خبر کے بیچ میں سانس روک لیتا ہے۔ آدھی خبر اشتہار سے پہلے، آدھی اشتہار کے بعد دیتا ہے۔ بقول شاعر پہلے اس نے مْس کہا پھر تق کہا پھر بل کہا اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیے خیر یہ ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے۔ مداری یا دوا فروش کہانی سنا کر یا بندر نچا کر آپ کو رجھاتا ہے اور عین بیچوں بیچ حرف مطلب زبان پر لاتا ہے کہ صاحبو…! خیر آج ہم بھی یہی کرتے ہیں۔ پہلے یہاں کی بات سناتے ہیں پھر اْدھر کو آتے ہیں۔ آج کل یہاں ٹیلی ویڑن پر ایک اشتہار آتا ہے۔ باکسنگ ہو رہی ہے۔ بڑا پہلوان چھوٹے پہلوان کو مار مار کر اْتو کر دیتا ہے۔ وہ بار بار ڈگمگاتا ہے، گرتا ہے۔ آخر اس ہارنے والے کی بی بی اس کو بلاتی ہے، اسے ایک دوا کا غرارہ کراتی ہے۔ اب جو کلی کرنے کے بعد رنگ میں جاتا ہے تو خود میں رستم کی سی طاقت پاتا ہے۔ ایک مکے میں حریف کو ڈھیر کر دیتا ہے۔ سب حیران ہیں کہ یہ دو دم میں کیا ماجرا ہو گیا کہ … گرنے والا کھڑا ہو گیا۔ اب دوا کی شیشی کی تصویر سامنے آتی ہے۔

 معلوم ہوا کہ یہ ساری کرامت لسٹرین کی ہے۔ ابھی کلی ہی کی ہے جس کی یہ تاثیر ہے۔ کہیں غٹ غٹ پی جاتا تو جانے کیا فیل مچاتا، ہنومان کی طرح پہاڑ سر پہ اٹھا لاتا۔ یہ نسخہ تو ولایت کا ہے لیکن ہمارے ہاں کے باکمال بھی کسی طور ان سے ہیٹے نہیں۔ ایسے سْرمے ہمارے ہاں یہاں عام ہیں کہ نہ صرف بصارت کو بڑھاتے ہیں، عینک چھڑاتے ہیں بلکہ انسان کی سوئی ہوئی بصیرت بھی جگاتے ہیں۔ البتہ ایک سْرمہ ایسا بھی دیکھا کہ قد بڑھاتا ہے۔ آنکھوں میں ایک سلائی لگائو اور بالشت بھر لمبے ہو جائو۔ ایک روغن دیکھا ’گیسو دراز‘ کہ برش پہ دو قطرے گر گئے تو اس کے بال دور کی خبر لانے لگے۔ غلطی سے ہتھیلی پر لگ گیا تو ہر روز ہتھیلی کی شیو کرانی لازم ہو گئی … اور تو اور خود شیشی کی داڑھی نکل آئی۔

ایسے منجن بھی ہیں کہ لکڑ ہضم، پتھر ہضم! انہی میں ایک دیکھا کہ دانتوں پہ ملو تو دانت موتی ہو جائیں، پھانک جائو تو ہاضم، قبض کی کلید، اسہال کے لیے یکساں مفید، مرہم بنائو تو برسوں پرانی چنبل اور دادغائب ہو جائے، دھونی دو تو گھر کے مکھی مچھر ، کیڑے مکوڑے ڈھیر ہو جائیں، پانی بھی نہ مانگیں۔ آنکھوں میں موتیا ہو ، پیٹ میں ہرنیا ہو، پائوں میں موچ ہو، سر پہ گنج ہو، باعث رنج ہو ، سب کے لیے یہ تحفہ فقیر یکساں اکسیر۔ اور پھر ہمارے مجمع گیر کا انداز ! بلا کا سخن ساز، سبحان اللہ۔ ذرا کان دھر کے قصہ سنو۔ 

اوائل عمر میں جانے کیا کرتوت کئے کہ زندگی اور علاج سے مایوس ہو کر کھٹمنڈو چلے گئے۔ وہا ں پہاڑ سے چھلانگ لگانے کو تھے کہ ایک فقیر خضر صورت نمودار ہوئے اور بولے ’’بیٹا! خودکشی مت کرو۔ زندگی خدا کی نعمت ہے۔ یہ ایک نسخہ ہے، خود استعمال کرو، خلق خدا میں تقسیم کرو۔ لیکن دیکھنا اس سے نفع کمانا حرام ہے… سوائے خرچہ اشتہار اور پیکنگ اور شیشی کی قیمت کے کہ حاصل جمع جس کا نو روپے آٹھ آنے ہوتا ہے اور کچھ وصول نہ کرنا ‘‘ … یوں یہ کاروبار چلتا ہے اور پھولتا پھلتا ہے۔ اب کھٹمنڈو میں سیاحوں کی ریل پیل ہے اور یہ فیشن سے باہر ہو گیا ہے کہ تو کسی نے تبت، چین، کسی نے جرمن دواخانہ ، کسی نے فرینچ لیبارٹری نام رکھ لیا ہے۔ ’’گھر کا جوگی جوگنا، باہر کا جوگی سدھ‘‘۔ یہا ںولایت میں ہمارے ہاں کے وید حکیم آتے ہیں تو دلی یا بنارس یا لاہور کے خاندانی حکیم کہلاتے ہیں۔ 

بڑے بڑے اشتہار دیتے ہیں۔ وطن واپس جاتے ہیں تو اے بی سی ڈی سے لے کر ایکس وائی زیڈ تک ڈگریو ںکا دْم چھلہ لگاتے ہیںاور ’’انگلینڈ ریٹرنڈ‘‘ کہلاتے ہیں۔ہمیں ایک بار ایک صاحب پر جو واقعی ہر مرض کا تیر بہدف شرطیہ علاج کرتے تھے، کچھ شبہ ہوا۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ نہیں، وہ واقعی انگلینڈ ریٹرنڈ تھے۔ اتنا البتہ ہے کہ یہاںبس کنڈکٹری کرتے تھے۔ کچھ دنوں ایک ہوٹل میں برتن بھی مانجھے۔بس اسی میں دست شفا پیدا ہو گیا۔ ’’یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔‘‘ (یہ اُردو کے بے مثل مزاح نگار ابنِ انشا کا آخری ریڈیائی کالم ہے جو انہوں نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کی اُردو سروس کے لیے ان دنوں تحریرکیا جب وہ لندن میں زیرِعلاج تھے۔


بہ شکریہ: دنیا پاکستان

Post a Comment

0 Comments