پروفیسرپطرس بخاری کا اصل نام سیداحمد شاہ بخاری تھا اور وہ بڑے طباع اور نکتہ سنج ادیب تھے۔ پطرس بخاری اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں کے قادرالکلام انشا پرداز، بلند پایہ نقاد اور ایک کام یاب مترجم تھے۔گلشن ِاُردو ادب میں طنز و مزاح کے رنگ بھرنے والے اس صاحب ِ طرز ادیب کی 5دسمبر کو56ویں برسی منائی گئی۔ سید احمد شاہ بخاری (پطرس بخاری) یکم اکتوبر 1898ء کو پشاور میں پیدا ہوئے ۔
اُن کے والد سید اسد اللہ شاہ پشاور میں ایک وکیل کے منشی تھے۔ ابتدائی تعلیم پشاور میں حاصل کی اور اس کے بعد گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخل ہوئے ،وہ کالج کے ادبی مجلے ’’راوی‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے ۔پطرس یہاں سے ایم اے کرنے کے بعد انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونی ورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی۔ وہاں کے اساتذہ کی رائے تھی کہ پطرس کا علم اس قدر فراخ اور وسیع و بسیط ہے کہ ایک انگریز کے لیے بھی اتنا علم اس عمر میں رکھنا کم وبیش ناممکن ہے ۔وطن واپس آنے پر سنٹرل ٹریننگ کالج اور پھر گورنمنٹ کالج میں انگریزی ادبیات کے پروفیسررہے ۔1937ء میں آل انڈیا ریڈیو کا محکمہ قائم ہوا، تو پطرس کی خدمات مستعار لی گئیں اور وہ قریباً7 برس تک بطور ِڈائریکٹر ریڈیو سے منسلک رہے ۔قیامِ پاکستان کے بعد پطرس، لاہور آگئے اور گورنمنٹ کالج، لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے ۔ 1950ء میں اُن کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کا مستقل نمایندہ بنا کر بھیجا گیا۔وہ اس عہدے پر 1954ء تک فائز رہے۔ پطرس دسمبر 1957 ء میں ریٹائر ہونے والے تھے اور کولمبیا یونی ورسٹی میں پروفیسری قبول کرچکے تھے ، مگر موت نے اُنھیں مہلت نہ دی اور پطرس بخاری5 دسمبر 1958ء کی صبح نیویارک میں حرکت ِقلب بند ہو جانے کے باعث انتقال کر گئے۔
اُن کی وفات پر معروف ’جریدے ’نیویارک ٹائمز‘‘ نے 7 دسمبر1958ء کو اپنے اداریہ میں ’’عالمی شہری‘‘ کے عنوان سے جو خراج ِعقیدت پیش کیا،اُس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے: ’’جب سے کپلنگ نے(مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب)کا گیت گایا ،اُسی دن سے ہم مختلف اور متصادم معاشروں کے تعلقات کے بارے میں زیادہ سوچ بچار کر رہے ہیں۔ ہمیشہ ہم اسی فکر میں رہتے ہیں کہ کوئی ایسا مرکب مل جائے ،جو ہر ایک کی بہترین خوبیوں کو محفوظ کردے ۔کبھی کبھی ہمیں کسی ایسی ہستی کی موجودگی کا یقین ہوجاتا ہے ،جو ہمارے تخیلات کو عمل کی دنیا میں لے آتی ہے ۔ ابھی ابھی ہمیں پاکستان کے سفیر پروفیسر احمد شاہ بخاری کی بے وقت موت کی شکل میں ایسی ہی ایک شخصیت کے ضیاع کا سامنا ہوا ہے، جنھوں نے اقوام متحدہ میں رئیس ِ شعبہ ٔاطلاعات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، وہ صحیح معنوں میں عالمی شہری تھے ۔
پروفیسر صاحب کا تعلیمی پس منظر مشرق اور مغرب( پنجاب یونی ورسٹی اور کیمبرج) دونوں کو آغوش میں لیے ہوئے ہے۔ اُنھوں نے مشرق اور مغرب دونوں کی زُبانوں اور محاوروں کا راگ الاپا۔ وہ مشرق اور مغرب دونوں کے نزدیک عالم تھے ،لیکن مشرق اور مغرب کا یہ ملاپ اس سے بھی زیادہ گہرا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک عظیم انسان تھے ! حاضر جواب، شائستہ، دانش مند، زندہ دل اور گرم جوش۔ وہ خود پسندی کی نمائش سے پاک تھے ، اُنھیں زندگی سے اُنس تھا۔ وہ اس دنیا میں بسنے والے لوگوں سے اُن کی قومیت، رنگ، نسل، مذہب یا پیشے کا خیال کیے بغیر محبت کرتے تھے ۔ اُن کی روح اُن کے ذہن کی طرح تنگ سرحدوں کی قائل نہ تھی۔ہزاروں امریکی جنھیں اُن سے ذاتی شناسائی کا شرف حاصل ہے۔ اُن کی موت کو اپنا ذاتی رنج محسوس کر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اس لیے کہ وہ دوست تھے ، لیکن یہ نقصان ذاتی نہیں بل کہ اس سے کچھ زیادہ ہے۔ دنیا ایک ایسے شخص کے اُٹھ جانے سے مفلس تر ہوگئی ہے، جو ہمیں بہتر طریق سے یہ دکھاتا تھا کہ آسودہ مستقبل کے لیے کون کون سی اچھی باتیں ممکن ہیں‘‘۔
اس سے قبل امریکا کے ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ میگزین ’’نیویارکر‘‘ نے بھی پطرس صاحب کی اقوام متحدہ میں بطورِ سفیر تعیناتی پر10ستمبر 1952ء کو ’’بھلے مانس بنو‘‘ کے عنوان سے ایک دلچسپ ادارتی نوٹ لکھا تھا،جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے: ’’ہم نے سن گن پائی کہ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمایندے پروفیسر احمد شاہ بخاری ہیں، جو عام طور پر عرب ایشیائی بلاک کے قابل ترین ترجمان سمجھے جاتے ہیں اور وہ پاک وہند کے سرکردہ مزاح نویس بھی ہیں۔ مستقل نمایندوں اور مزاح نویسوں میں مجموعی طور پر یا الگ الگ دلچسپی رکھنے کے باعث ہم نے پروفیسر صاحب کی تصانیف حاصل کرنی چاہیں، لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ ان میں سے کسی کا ترجمہ انگریزی میں نہیں ہوا۔ ہم نے یہ ٹھان لی کہ اُن کا پیچھا ضرور کریں گے۔
خود پروفیسر صاحب کو ٹیلی فون کیا اور ہمیں اقوام ِمتحدہ کی عمارت میں لنچ پر حاضر ہونے کی دعوت مل گئی۔بہرکیف پروفیسر صاحب اُن چند خوش دل، بامروت اور ذی علم مستقل نمایندوں یا مزاح نویسوں میں سے ایک ہیں، جن سے ہم مدت کے بعد ملے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ 1928ء تک وہ ایک اُستاد، مترجم اور مصنف تھے ، سیاسی سفیر نہ تھے۔1927ء میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے صدر (پرنسپل) تھے ۔ تیس برس وہ اس کالج میں ادبیات کے پروفیسر رہے۔ اُنھوں نے اس درس گاہ کے تجرباتی تھیٹر کے لیے دوسری چیزوں کے علاوہ شیکسپیئر اوربرنارڈ شا کے بہت سے ڈرامے اُردو میں ترجمہ کرکے دیئے، جن میں امبن کا ڈراما ’گڑیاگھر‘ اور اطررائس کا ڈراما ’جمع کرنے والی مشین‘بھی ہیں۔ پروفیسر صاحب نے ہمیں بتایاکہ ہارون الرشید کے زریں دَور کے بعد گزشتہ چالیس سال کا زمانہ اسلامی دنیا میں تراجم کے لیے بڑا سازگار رہا ہے ۔ پہلے زمانے میں مسلمان ہر اس چیز کا ترجمہ کرلیتے تھے، جو فلسفہ اور سائنس میں اُن کے ہاتھ لگتی تھی۔ اب ادب کے تراجم پر زُور صرف ہورہا ہے ۔
تمھیں شیکسپیئر کو اُردو میں سننا چاہیے ۔ لاہور کی مقامی بولی میں ’پیندا‘ نہایت ظریفانہ لفظ ہے، شیکسپیئر کی حیرت انگیز خوبی یہ ہے کہ ترجمہ خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو ڈرامے سے کچھ نہ کچھ لطف حاصل ہو ہی جاتا ہے ۔۔۔تیز نیلی آنکھوں والے پروفیسر بخاری نے جو ٹویڈ کا سوٹ پہنے اور نیلے رنگ کی ٹائی لگائے ہوئے تھے، برطانیہ اور امریکا کی غیر افسانوی کتابوں کے ترجمے بھی کیے ہیں۔ اُردو کا ایک مزاحیہ رسالہ بھی مرتب کرتے رہے ہیں۔ اُنھوں نے انگریزی اور اُردو میں ادبی تنقیدیں بھی لکھی ہیں۔ مزاح نگار کی حیثیت سے اُن کی شہرت تین یا چار سو مختصر افسانوں پر پھیلی ہوئی ہے ،جو اُنھوں نے پطرس کے قلمی نام سے لکھے۔ اُنھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اُن افسانوں کی مقبولیت کی بعض وجوہ یہ ہیں کہ وہ غلط ہیں۔ نقادوں نے اُن کے بارے میں کہا کہ یہ افسانے اگرچہ مزاحیہ ہیں، لیکن اُنھیںبے دھڑک گھروں میں لے جایاجا سکتا ہے ۔پطرس کو پاکستان میں شگفتہ ترین شخص مانا جاتا ہے ۔
اُن کے چند افسانوں کا ترجمہ انگریزی میں ہوچکا ہے ، جنھوں نے اہل ِبرطانیہ کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ برطانیہ والے کہتے ہیں کہ اُنھیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک مشرقی مزاحیہ نگار ایسا بھی ہے جو ’غزالی‘ آنکھوں اور ناموافق حالات کو اپنی تحریروں کا مرکز نہیں بناتا۔ ہم نے پوچھا کہ آخر پطرس اپنی توجہ کا مرکز کس چیز کو بناتا ہے ؟ پروفیسر بخاری نے جواب دیا کہ میری کہانیوں کا مثالی کردار ہمیشہ ایک معمولی آدمی ہوتا ہے، جس میں بہت سی کمزوریاں اور کوتاہیاں ہوں۔ حادثات اسے ایسے ناموافق ماحول میں پھینک دیں ،جسے وہ پسند نہ کرتا ہو۔ وہ ہمیشہ بڑا سیاست دان اورعظیم ادیب بننے کے خواب دیکھتا ہو۔ ایک کہانی میں وہ خطرناک سرغنہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور بالآخر ناکام رہنے کے نتیجے میں بہتر آدمی بن جاتا ہے ۔
اُنھوں نے اپنی تحریروں میں واحد متکلم اور جمع متکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے تاکہ طنز کا نشانہ خود بیان کرنے والا بنے۔ پاکستانی اس بات کو بہت پسند کرتے ہیں۔ میرا اصول یہ ہے کہ بھلے مانس بنو۔۔۔پروفیسر بخاری لسانیات کے بہت بڑے ماہر ہیں۔ ایک دفعہ اُنھوں نے کوکنی (Cockney) کے اختلافی لب ولہجہ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے چھ مہینے صرف کیے تھے ۔ اُنھوں نے بڑی گرم جوشی سے ہمیں بتایا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کوکنی زبان اپنی گرامر اور حروفِ علت کا مخصوص نظام رکھتی ہے ۔ ہم اُمیدوار بن کر انتظار کرنے لگے ، لیکن اُنھوں نے کہا کہ اب میں کوکنی لب و لہجہ کی نقل اُتارنے کی جرأت نہیں کروں گا۔ میرا خیال ہے کہ میَں پھر شاہی انگریزی کی طرف لوٹ آیا ہوں اور بونوں کی جون سے نکل چکا ہوں۔
ہم نے دریافت کیا کہ آپ سفارتی فرائض اور مزاح نویسی کو کس طرح یکجا کرتے ہیں؟ پروفیسر صاحب نے جواب دیا کہ مزاح نویسی میں میری پیداوار بہت کم ہوگئی ہے ایک مشکل یہ ہے کہ وقت نہیں ملتا۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ سفارتی کاروبار میں آپ بعض چیزوں پر ہنس تو سکتے ہیں، لیکن مضحکہ اُڑانے کی مقدار روایات نے مقرر کردی ہے‘‘۔ ’’پطرس کے مضامین‘‘ بیش تر قارئین نے پڑھ رکھا ہو گا اور ایک زمانہ اُن کے ان مضامین کا مداح ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کی بنیادی وجہ اور خصوصیت یہ ہے کہ پطرس بخاری اپنی تحریروں میں بھر پور پر مزاح پیداکرنے کے باوجود کسی کا دل نہیں دکھاتے بل کہ ایک بلند پایہ انسان کی طرح، جس کسی کی ذات سے مزاح پیدا کرتے ہیں، اس کی ذات کے لیے ایک ایسا آئینہ بن جاتے ہیں ،جس میں اسے اپنی تمام ترکمزوریاں نظر آجاتی ہیں۔ پطرس کسی کی کمزوری دریافت کر کے اُس کا مذاق نہیں اُڑاتے اور نہ ہی اُس پر طنز کرتے ہیں بل کہ اُس کی کمزوری کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے، مسکراتے گزر جاتے ہیں، یعنی پطرس بخاری کا مزاح تلخی پیدا نہیں کرتا۔ الغرض پطرس کا انداز ایک مخالف یا دشمن کا انداز نہیں بل کہ ایک ہمدرد اور دوست کی طرح کا ہے ، جو اُس کی کمزوریوں کی وجہ بتا تا ہے، پھر ہنستے ہنساتے اُن کمزوریوں اور اُن کی وجوہ کا اس طرح ذکر کرتا ہے کہ دوسرا اُس سے پوری طرح آگاہ ہو جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر رشید احمدصدیقی کہتے ہیں ’’اگر ہم ذہن میں کسی ایسی محفل کا نقشہ جمائیں، جہاں تمام ملکوں کے مشاہیر اپنے اپنے شعروادب کا تعارف کرانے کے لیے جمع ہوں ،تو اُردو کی طرف سے بہ اتفاق آراء کس کو اپنا نمایندہ انتخاب کریں گے؟ یقیناً بخاری کو...! بخاری نے اس قسم کے انتخاب کے معیار کو اتنا اُونچا کر دیا ہے کہ نمایندوں کا حلقہ مختصر ہوتے ہوتے معدوم ہونے لگا ہے۔ یہ بات کسی وثوق سے ایسے شخص کے بارے میں کہہ رہا ہوں، جس نے اُردو میں سب سے کم سرمایہ چھوڑا ہے، لیکن کتنا اونچا مقام پایا‘‘۔ایک اورنقاد کا کہنا ہے ’’ پطرس بخاری نے اپنی ظرافت کا مواد زندگی سے لیا ہے۔ زندوں سے مواد کوئی زندہ دل ہی لے سکتا ہے ،جس نے زندگی کو محسوس کیا ہے اور برتا ہے‘‘۔ پطرس مذاق ہی مذاق میں کام کی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ چاہے ’’لاہور کا جغرافیہ‘‘ ہو، ’’میبل اور میَں‘‘ یا ’’بچے‘‘ ہر جگہ اُن کا ذہن ایک ہی لفظ کے گرد گھومتا ہے، وہ ہے مقصدیت۔’’پطرس کے مضامین ‘‘ بخاری صاحب کی مزاحیہ طبیعت کے آئینہ دار ہیں اور یہ مضامین ہمیشہ دلچسپی سے پڑھے جاتے رہیں گے۔ اُن کے دوسرے مضامین میں بھی عام آدمی کے مشاہدے اور تجربات کی باتیں کی گئی ہیں، اسی طرح صاحب مذکور کے مضامین ہیں، وہ عمومیت ہے، جو اُنھیں دوسرے مزاح نگاروں، مثلاً رشید احمد صدیقی اور فرحت اللہ بیگ وغیرہ سے جدا کرتی ہے۔ رشید صاحب علی گڑھ کی فضا سے باہر نہیں نکلتے اور بیگ صاحب دلّی اور حیدرآباد کے ماحول کے اسیر رہتے ہیں، اس لیے اُن کا مزاح عام آدمی اور خاص آدمی سبھی کے لیے دلچسپی اورخوش دِلی کی چیز ہے۔ ٭
کاظم جعفری
0 Comments