آج ایسا نہیں، ایسا نہیں ہونے دینا
=========================
مری بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے
پر کہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اُترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر مری جانب لپکے...
مرے سینے میں سدا اپنا ہی خنجر اُترا
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر ہوئی عام وہی اہلِ ریا کی باتیں
نعرہ حُب وطن، مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح، دین ِ خدا کی باتیں
دِل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخ بازو کیلئے زلف کا بازو رویا
مثل پیراہن گل، پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دونیم
نوک دشنہ سے کھچی تھی مری دھرتی پہ لکیر
آج ایسا نہیں، ایسا نہیں ہونے دینا
اے میرے سوختہ جانو میرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
مرے دِل گیر مرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل کیلئے
خود کو تقسیم نہ کرنا، مرے سارے لوگو!!
0 Comments