Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

شکیب جلالی........معرکتہ آلاراشاعر


برصغیر پاک و ہند کی ادبی تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو ہمیں کچھ شعراکے بارے میں یہ پتہ چلے گا کہ انہوں نے بہت کم عمر پائی لیکن ان کی شعری عظمت کا سکہ آج بھی قائم ہے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کر کے قاری اس نتیجے پر بھی پہنچتا ہے کہ اگر عمر ان سے وفا کرتی تو وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کا مزید کئی برس تک مظاہرہ کر سکتے تھے اور یوں اردو کے شعری ادب کے خزانے میں بیش قیمت اضافہ ہو سکتا تھا لیکن بہرحال یہ سب قدرت کے کام ہیں۔ وہ شعرا جو کم عمری میں ہی اپنے مداحوں کو داغ مفارقت دے گئے ان میں اہم ترین نام شکیب جلالی کا ہے۔

یکم اکتوبر 1934کو علی گڑھ کے قریب ایک گائوں جلالی میں پیدا ہونے شکیب جلالی کا اصل نام سید حسن رضوی تھا۔وہ جب دس برس کے تھے تو ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اس افسوسناک واقعے کا ان کے والدپر بہت گہرا اثر ہوا اور وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اور پھر کچھ دن بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ 1950ء میں شکیب جلالی نے بدایوں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر پاکستان چلے آئے۔ پاکستان میں انہوں نے سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور پھر لاہور سے بی اے آنرز کی ڈگری لی۔ایم اے کرنے کے آرزو مند تھے لیکن معاشی تنگدستی آڑے آ گئی۔شکیب جلالی نے راولپنڈی سے ایک ادبی جریدے ’’گونج ‘‘کا اجرا کیا ان کا ایک دوست بھی ان کا ساجھے دار تھا ۔بدقسمتی سے یہ جریدہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا وہ لاہور واپس آئے اور کچھ اور ادبی جرائد کے لیے کام کیا جن میں ’’شاہکار‘‘ ،’’وحدت‘‘ اور’’جاوید‘‘ شامل ہیں۔ اس کے بعد وہ صحافت میں آ گئے اور روزنامہ’’ مغربی پاکستان اور مشرق‘‘ کے لیے کام کیا۔پھر بھکر میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ملازمت اختیار کر لی۔

 شکیب جلالی کی شاعری کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ انہوں نے غزل کو نیا لہجہ دیا۔وہ منفرد اسلوب کے شاعر تھے ان کی غزلیات کا مجموعہ’’ روشنی اے روشنی‘‘ ان کی وفات کے چھ سال بعد 1972ء میں لاہور سے شائع ہوا اس مجموعہ کلام کا شمار اردو کے چند اہم ترین شعری مجموعوں میں ہوتا ہے۔جہاں بھی شعری طرز احساس اور جدید طرز احساس کے خوبصورت ترین امتزاج کی بات ہوتی ہے تو شکیب جلالی کا نام سرفہرست دکھائی دیتا ہے۔ خیال کی ندرت اور سلاست بھی ان کی شاعری کے اہم اوصاف ہیں۔وہ بہت اختراع پسند (Innovative)تھے ۔اس کا اظہار وہ خود اپنے اس شعر میں کرتے دکھائی دیتے ہیں: شکیب اپنے تعارف کیلئے یہ بات کافی ہے ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے ان کا غزل کا مزاج سب سے مختلف ہے، درج ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے: جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے اوائل عمری سے ہی شکیب جلالی نے اعلیٰ درجے کے اشعار کہنے شروع کر دیئے تھے۔ صرف 18 برس کی عمر میں انہوں نے ایسے باکمال اشعار کہے کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے: اٹھ گیا اعتبار منزل کا دیکھ لی رہبروں کی رہنمائی عزم نے زندگی کو جیت لیا اپنی پستی پہ موت شرمائی نئے مزاج اور لہجے کی جس شاعری کا انہوں نے آغاز کیا تھا وہ آخری دم تک جاری رہا۔ ان کی فکرکا سورج نئی روشنی بکھیرتا رہا،یہ اشعار دیکھیے: یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ منظر کودیکھ کر پس منظر بھی دیکھئے بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ شکیب جلالی فطری حقائق کو بیان کرنے میں بھی اپنا ایک الگ انداز رکھتے تھے۔ ان کی شاعری کے بہت سے رنگ ہیں جنہیں وہ اپنے خوبصورت اسلوب میں ڈھال لیتے تھے۔ ان کی شاعری کی ایک اور جہت آپ کو ان کے مندرجہ ذیل اشعار میں نظر آئے گی: تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ!مجھے ڈوبتے بھی دیکھ عالم میں جس کی دھوپ تھی اس شاہکار پر دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ شکیب جلالی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت حساس تھے اور نفسیاتی خلفشار کا شکار تھے۔ 1966

ء میں ادبی حلقوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ شکیب جلالی نے سرگودھا میں ٹرین تلے آ کر خودکشی کرلی۔ اس وقت ان کی عمر صرف 32 برس تھی۔ ان کا اپنا ایک شعر ان کی پوری زندگی کی بھرپور عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے: آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

Post a Comment

0 Comments