یہ تری آنکھوں کی بیزاری، یہ لہجےکی تھکن کتنےاندیشوں کی حامل ہیں یہ دل کی دھڑکنیں پیشتراس سے کہ ہم پھر سے مخالف سمت کو بے خدا حافظ کہے چل دیں جھکا کر گردنیں ... آؤ اس دکھ کوپکاریں جس کی شدت نے ہمیں اس قدر اک دوسرے کے غم سے وابسۃ کیا وہ جو تنہائ کا دکھ تھا، تلخ محرومی کا دکھ جس نےہم کودرد کےرشتے میں پیوستہ کیا
میں بھی ناکامِ وفا تھا، تو بھی محرومِ مراد ہم یہ سمجھےتھےکہ دردِمشترک راس آگیا تیری کھوئ مسکراہٹ قہقہوں میں ڈھل گئ میراگم گشتہ سکوں پھرسےمرے پاس آگیا
آؤ یہ سوچیں کہ قاتل ہیں تو بہتر ہے یہی پھرسے ہم اپنے پرانےزہر کو امرت کہیں تواگر چاہے توہم اک دوسرے کو چھوڑکر اپنے اپنے بیوفاؤں کے لیئے روتے رہیں (فرازاحمد فراز
0 Comments