خواہشوں کی نمائش پہ مسکرانے والے
خواہشوں کی نمائش پہ مسکرانے والے
خود بھی افسردہ ہیں اج مجھے رولانے والے
تیرا غم پالنے میں ڈالے ۔۔۔ برسوں سے
دیکھ تھکے نہیں ہاتھ جھولا جھولانے والے...
خود سے لڑتے ہوئے مجھے اب ڈر لگتا ہے
کون منائے گا اب ، کہاں مجھ کو منانے والے
قا صد نے دی خبر میرے مرنے کی تو بولے
مل جائیں گے اُسے دو چار آنسو بہانے والے
میں کہاں بین کروں اب اپنی سچائی کا
اسی کے طرفدار نظر آتے ہیں زمانے والے
شعلے اٹھتے تو دیکھے تھے سب نے
پھر کہاں سے لاتا خواب آگ بجھانے والے
0 Comments